عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ جَعْفَرٍ الْجَعْفَرِيِّ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام يَقُولُ إِنَّ مِنْ حَقِّ الْعَالِمِ أَنْ لا تُكْثِرَ عَلَيْهِ السُّؤَالَ وَلا تَأْخُذَ بِثَوْبِهِ وَإِذَا دَخَلْتَ عَلَيْهِ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ فَسَلِّمْ عَلَيْهِمْ جَمِيعاً وَخُصَّهُ بِالتَّحِيَّةِ دُونَهُمْ وَاجْلِسْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلا تَجْلِسْ خَلْفَهُ وَلا تَغْمِزْ بِعَيْنِكَ وَلا تُشِرْ بِيَدِكَ وَلا تُكْثِرْ مِنَ الْقَوْلِ قَالَ فُلانٌ وَقَالَ فُلانٌ خِلافاً لِقَوْلِهِ وَلا تَضْجَرْ بِطُولِ صُحْبَتِهِ فَإِنَّمَا مَثَلُ الْعَالِمِ مَثَلُ النَّخْلَةِ تَنْتَظِرُهَا حَتَّى يَسْقُطَ عَلَيْكَ مِنْهَا شَيْءٌ وَالْعَالِمُ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْغَازِي فِي سَبِيلِ الله۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا عالم کا حق یہ ہے کہ اس سے بہت زیادہ سوال نہ کرو اور اس کا دامن نہ پکڑو اگر وہ مجلس سے اٹھنا چاہے اور جب اس کے پاس جاؤ اور کچھ لوگ اس کے پاس بیٹھے ہوں تو سب کو سلام کرو اور خصوصیت سے اس کو سلام کرو۔ اس کے سامنے بیٹھو پیچھے نہ بیٹھو اور اپنی آنکھ سے اشارہ نہ کرو اور ہاتھ سے بھی اشارہ نہ کرو اور زیادہ نہ بولوکہ فلاں فلاں نے آپ کے قول کے خلاف یہ کہا ہے اور طولِ صحبت سے اس کو پریشان نہ کرو۔ عالم کی مثال درخت کی سی ہے کہ تم انتظار کرتے رہو کہ اس سے کوئی شے تمہارے اوپر گرے۔ عالم کا اَجر روزہ دار، نماز گذار اور فی سبیل اللہ غازی سے زیادہ ہے۔