مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَيْمُونٍ الْقَدَّاحِ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْقَدَّاحِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ مَنْ سَلَكَ طَرِيقاً يَطْلُبُ فِيهِ عِلْماً سَلَكَ الله بِهِ طَرِيقاً إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِهِ وَإِنَّهُ يَسْتَغْفِرُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَمَنْ فِي الارْضِ حَتَّى الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ النُّجُومِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الانْبِيَاءِ إِنَّ الانْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَاراً وَلا دِرْهَماً وَلَكِنْ وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ مِنْهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔
حضرت رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا جو شخص طلب علم کے لئے راستہ طے کرتا ہے اللہ اس کو جنت کی طرف لے جاتا ہے اور ملائکہ اپنے پَروں کو طالب علم کے لیے بچھاتے ہیں کیونکہ وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اور آسمان اور زمین کے رہنے والے حتیٰ کہ دریا کی مچھلیاں طالبعلم کے لیے استغفار کرتی ہیں۔
اور فرمایا کہ عالمِ دین کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چاند کی فضیلت ستاروں پر اور چاندنی رات پر اور علماء وارثِ انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں چھوڑتے اپنی امت کے لیے درہم و دینار بلکہ چھوڑتے ہیں علمِ دین کو۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا اس نے بڑا نصیبہ پایا۔
توضیح: اس سے مراد ہے کہ وہ نظام سرمایہ داری قائم کرنے دنیا میں نہیں آتے بلکہ علمِ دین کی تعلیم کے لیے دنیا میں آتے ہیں جو مال خدا نے ان کے اور ان کی اولاد کے بسر اوقات کے لیے مخصوص کیا ہوتا ہے وہ انبیاء کے بعد ان کی اولاد کو ورثہ میں پہنچتا ہے تاکہ وہ ذلت کی زندگی بسر نہ کریں اور دوسروں کے محتاج بن کر اپنی خودداری اور اپنے روحانی اقتدار کو نہ کھو بیٹھیں۔ ہمارے رسولﷺ نے جو ترکہ چھوڑا وہ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا ۔اگر حدیث لا نرث ولا نورث کو صحیح تسلیم کیا جائے تو رسولﷺ نے اپنے باپ کے ترکہ سے ان کی کنیز اُم ایمن کو کیسے ورثہ میں پایا اور رسولﷺ کے ورثہ میں ازواج نے مکانات کیسے حاصل کئے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ إِنَّ الَّذِي يُعَلِّمُ الْعِلْمَ مِنْكُمْ لَهُ أَجْرٌ مِثْلُ أَجْرِ الْمُتَعَلِّمِ وَلَهُ الْفَضْلُ عَلَيْهِ فَتَعَلَّمُوا الْعِلْمَ مِنْ حَمَلَةِ الْعِلْمِ وَعَلِّمُوهُ إِخْوَانَكُمْ كَمَا عَلَّمَكُمُوهُ الْعُلَمَاءُ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا بے شک وہ جو تعلیم دیتے ہیں علم کی تم میں سے ان کا اجر ویسا ہی ہے جیسا طالب علم کا ہے اور اس کے لیے فضل خداوندی ہے۔ پس جنھوں نے علم حاصل کیا صاحبانِ علم سے اور اپنے بھائیوں کو بھی تعلیم دی جیسا کہ تم کو علماء نے تعلیم دی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ مَنْ عَلَّمَ خَيْراً فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهِ قُلْتُ فَإِنْ عَلَّمَهُ غَيْرَهُ يَجْرِي ذَلِكَ لَهُ قَالَ إِنْ عَلَّمَهُ النَّاسَ كُلَّهُمْ جَرَى لَهُ قُلْتُ فَإِنْ مَاتَ قَالَ وَإِنْ مَاتَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس نے کسی کو علمِ دین دیا تو اس کو عمل کرنے کا سارا اجر ملے گا۔ میں نے کہا اگر وہ اپنے غیر کو سکھائے تو، فرمایا اگر وہ تمام لوگوں کو سکھاتا رہیگا تو بھی یہی صورت رہیگی، ہر ایک کا ثواب اس کو ملے گا۔ میں نے کہا اگر مرد اول مر جائے اور دوسرا اسکی تعلیم لوگوں کو یاد دلائے تو بھی ثواب ملے گا، فرمایا تو بھی ثواب ملے گا۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ مَنْ عَلَّمَ بَابَ هُدًى فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهِ وَلا يُنْقَصُ أُولَئِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئاً وَمَنْ عَلَّمَ بَابَ ضَلالٍ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ أَوْزَارِ مَنْ عَمِلَ بِهِ وَلا يُنْقَصُ أُولَئِكَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئاً۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جو امرِ دین میں سے کسی ایک چیز کی تعلیم کر دے اس کا وہی اجر ہو گا جو کام کرنے والے کا ہوتا ہے اس کے اجر سے کوئی شے کم نہ ہو گی اور جو گمراہی کی کوئی بات تعلیم کرے گا تو اس کا وہی گناہ ہوگا جو کام کرنے والے کا ہوتا ہے کوئی شے کم نہ ہو گی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ رَفَعَهُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي طَلَبِ الْعِلْمِ لَطَلَبُوهُ وَلَوْ بِسَفْكِ الْمُهَجِ وَخَوْضِ اللُّجَجِ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَوْحَى إِلَى دَانِيَالَ أَنَّ أَمْقَتَ عَبِيدِي إِلَيَّ الْجَاهِلُ الْمُسْتَخِفُّ بِحَقِّ أَهْلِ الْعِلْمِ التَّارِكُ لِلاقْتِدَاءِ بِهِمْ وَأَنَّ أَحَبَّ عَبِيدِي إِلَيَّ التَّقِيُّ الطَّالِبُ لِلثَّوَابِ الْجَزِيلِ اللازِمُ لِلْعُلَمَاءِ التَّابِعُ لِلْحُلَمَاءِ الْقَابِلُ عَنِ الْحُكَمَاءِ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے کہ اگر لوگ جانتے کہ طلب علمِ دین میں کیا فائدہ ہے تو البتہ طلب کرتے جان کے زوال کی صورت میں مصائب کے گردابوں میں غوطہ لگانے کی صورت میں، خدا نے دانیال پیغمبر کو وحی کی کہ میرا سب سے زیادہ دشمن وہ جاہل ہے جو اہل علم کے حق کو چھپاتا ہے اور ان کی پیروی کو ترک کرتا ہے اور میرا سب سے زیادہ محبوب بندہ ثواب عظیم کا طالب ہے وہ علماء کے ساتھ رہتا ہے حکماء کا تابع ہے اور حکماء کی باتوں کو قبول کرنے والا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَمِلَ بِهِ وَعَلَّمَ لله دُعِيَ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ عَظِيماً فَقِيلَ تَعَلَّمَ لله وَعَمِلَ لله وَعَلَّمَ لله۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ نے جس نے علمِ دین کو سیکھا یا اس پر عمل کیا اور فی سبیل اللہ تعلیم دی تو ملکوت سماوات میں وہ بڑی عزت کے ساتھ پکارا گیا اور اس کے لیے کہا گیا کہ اس نے خوشنودیِ خدا کے لیے عمل کیا اور خوشنودیِ خدا کے لیے دوسروں کو سکھایا۔