مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(2-6)

باب الکون والمکان

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَأَلَ نَافِعُ بْنُ الازْرَقِ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام فَقَالَ أَخْبِرْنِي عَنِ الله مَتَى كَانَ فَقَالَ مَتَى لَمْ يَكُنْ حَتَّى أُخْبِرَكَ مَتَى كَانَ سُبْحَانَ مَنْ لَمْ يَزَلْ وَلا يَزَالُ فَرْداً صَمَداً لَمْ يَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَلا وَلَداً۔

نافع نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا مجھے بتائیے خدا کب سے ہے، فرمایا وہ کب نہ تھا کہ میں بتاؤں کہ وہ کب سے ہے، پاک ہے وہ ذات جو ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گی، وہ اکیلا ہے بے نیاز ہے نہ اس کی بی بی ہے نہ بچے۔

حدیث نمبر 2

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام مِنْ وَرَاءِ نَهَرِ بَلْخَ فَقَالَ إِنِّي أَسْأَلُكَ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَإِنْ أَجَبْتَنِي فِيهَا بِمَا عِنْدِي قُلْتُ بِإِمَامَتِكَ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام سَلْ عَمَّا شِئْتَ فَقَالَ أَخْبِرْنِي عَنْ رَبِّكَ مَتَى كَانَ وَكَيْفَ كَانَ وَعَلَى أَيِّ شَيْءٍ كَانَ اعْتِمَادُهُ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَيَّنَ الايْنَ بِلا أَيْنٍ وَكَيَّفَ الْكَيْفَ بِلا كَيْفٍ وَكَانَ اعْتِمَادُهُ عَلَى قُدْرَتِهِ فَقَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَقَبَّلَ رَأْسَهُ وَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله وَأَنَّ عَلِيّاً وَصِيُّ رَسُولِ الله ﷺ وَالْقَيِّمُ بَعْدَهُ بِمَا قَامَ بِهِ رَسُولُ الله ﷺ وَأَنَّكُمُ الائِمَّةُ الصَّادِقُونَ وَأَنَّكَ الْخَلَفُ مِنْ بَعْدِهِمْ۔

ایک شخص امام رضا علیہ السلام کے پاس آیا وراء نہر بلخ سے اور کہنے لگا میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں اگر آپ نے جواب دے دیا تو میں آپ کی امامت کا معتقد ہو جاؤں گا، فرمایا جو چاہے پوچھ لے، اس نے کہا کہ یہ بتائیے کہ آپ کا رب کب سے ہے اور کیسا ہے اور کس چیز پر سہارا کیے ہوئے ہے، حضرت نے فرمایا اس نے ہر جگہ والے کو جگہ والا بنایا اس کے لیے کوئی جگہ نہیں وہ کیفیتوں کا پیدا کرنے والا ہے خود صاحبِ کیفیت نہیں اس کا اعتماد اپنی قدرت پر ہے یہ سن کر وہ شخص اٹھا اور حضرت کے سر پر بوسہ دیا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول ہیں اور علی وصیِ رسول ہیں اور رسول اللہ کو جس راہ پر قائم کیا تھا قائم ہیں اور آپ لوگ سچے امام ہیں اور آپ ان کے صحیح نانشین ہیں۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابي جعفر علیہ السلام فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنِي عَنْ رَبِّكَ مَتَى كَانَ فَقَالَ وَيْلَكَ إِنَّمَا يُقَالُ لِشَيْءٍ لَمْ يَكُنْ مَتَى كَانَ إِنَّ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى كَانَ وَلَمْ يَزَلْ حَيّاً بِلا كَيْفٍ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كَانَ وَلا كَانَ لِكَوْنِهِ كَوْنُ كَيْفٍ وَلا كَانَ لَهُ أَيْنٌ وَلا كَانَ فِي شَيْءٍ وَلا كَانَ عَلَى شَيْءٍ وَلا ابْتَدَعَ لِمَكَانِهِ مَكَاناً وَلا قَوِيَ بَعْدَ مَا كَوَّنَ الاشْيَاءَ وَلا كَانَ ضَعِيفاً قَبْلَ أَنْ يُكَوِّنَ شَيْئاً وَلا كَانَ مُسْتَوْحِشاً قَبْلَ أَنْ يَبْتَدِعَ شَيْئاً وَلا يُشْبِهُ شَيْئاً مَذْكُوراً وَلا كَانَ خِلْواً مِنْ الْمُلْكِ قَبْلَ إِنْشَائِهِ وَلا يَكُونُ مِنْهُ خِلْواً بَعْدَ ذَهَابِهِ لَمْ يَزَلْ حَيّاً بِلا حَيَاةٍ وَمَلِكاً قَادِراً قَبْلَ أَنْ يُنْشِئَ شَيْئاً وَمَلِكاً جَبَّاراً بَعْدَ إِنْشَائِهِ لِلْكَوْنِ فَلَيْسَ لِكَوْنِهِ كَيْفٌ وَلا لَهُ أَيْنٌ وَلا لَهُ حَدٌّ وَلا يُعْرَفُ بِشَيْءٍ يُشْبِهُهُ وَلا يَهْرَمُ لِطُولِ الْبَقَاءِ وَلا يَصْعَقُ لِشَيْءٍ بَلْ لِخَوْفِهِ تَصْعَقُ الاشْيَاءُ كُلُّهَا كَانَ حَيّاً بِلا حَيَاةٍ حَادِثَةٍ وَلا كَوْنٍ مَوْصُوفٍ وَلا كَيْفٍ مَحْدُودٍ وَلا أَيْنٍ مَوْقُوفٍ عَلَيْهِ وَلا مَكَانٍ جَاوَرَ شَيْئاً بَلْ حَيٌّ يُعْرَفُ وَمَلِكٌ لَمْ يَزَلْ لَهُ الْقُدْرَةُ وَالْمُلْكُ أَنْشَأَ مَا شَاءَ حِينَ شَاءَ بِمَشِيئَتِهِ لا يُحَدُّ وَلا يُبَعَّضُ وَلا يَفْنَى كَانَ أَوَّلاً بِلا كَيْفٍ وَيَكُونُ آخِراً بِلا أَيْنٍ وَكُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلا وَجْهَهُ لَهُ الْخَلْقُ وَالامْرُ تَبَارَكَ الله رَبُّ الْعَالَمِينَ وَيْلَكَ أَيُّهَا السَّائِلُ إِنَّ رَبِّي لا تَغْشَاهُ الاوْهَامُ وَلا تَنْزِلُ بِهِ الشُّبُهَاتُ وَلا يَحَارُ وَلا يُجَاوِزُهُ شَيْءٌ وَلا تَنْزِلُ بِهِ الاحْدَاثُ وَلا يُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ وَلا يَنْدَمُ عَلَى شَيْءٍ وَلا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الارْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى۔

ابوبصیر سے مروی ہے کہ ایک شخص محمد باقر علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا مجھے بتائیے آپ کا رب کب سے ہے، فرمایا وائے ہو تجھ پر وہ کب نہ تھا، میرا رب ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ بغیر کسی کیفیت کے زندہ ہے اور اس کے لیے ہونا نہیں۔ وہ ہر کیفیت کا پید کرنیوالا ہے اس کے لیے کوئی جگہ نہیں نہ وہ کسی شے میں ہے نہ وہ کسی شے پر ہے نہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے نہ وہ قوی اشیاء کو پیدا کرنے کے بعد اور نہ کسی شے کو پیدا کرنے کے بعد کمزور ہوا۔ نہ وہ کسی شے کو پیدا کرنے سے پہلے گھبرایا ہوا تھا اور نہ مذکورہ اشیاء میں سے کسی چیز کے مشابہ ہے نہ وہ پیدا کرنےسےپہلے ملک سے الگ تھا اور نہ ان کے زوال کے بعد وہ اپنی حکومت سے الگ ہوا بغیر حیات کے تعلق کے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور صاحب قدرت حاکم رہا قبل اس کے کہ وہ کسی چیز کو پیدا کرے اور پیدا کرنے سے پہلے بھی وہ مالک جبار رہا۔ اس کے لیے نہ کوئی کیفیت ہے نہ جگہ ہے نہ حد ہے اور اپنی مشابہ چیز سے نہیں پہچانا جاتا اور نہ طولِ بقا سے وہ بوڑھا ہوتا ہے۔ وہ مضطرب نہیں ہوتا کسی چیز سے بلکہ تمام مخلوق اس کے خوف سے مضطرب ہوتی ہے وہ حی ہے لیکن حیات اس میں پیدا نہیں ہوتی اور نہ وہ ہونے سے موصوف ہے اور نہ کسی کیفیت میں محدود ہے اور نہ کسی جگہ ٹھہرا ہوا ہے اور نہ وہ کوئی جگہ ہے کہ کسی چیز کو جگہ دے۔ وہ حی ہے جس کی معرفت حاصل کی جاتی ہے وہ ہمیشگی کے ساتھ مالک ہے اس کی قدرت اور حکومت ہمیشہ رہنے والی ہے اس نے جو چاہا اور جیسا چاہا پیدا کیا اپنے ارادہ سے نہ اس کی کوئی حد ہے نہ اس کا کوئی جزو ہے نہ وہ فنا ہونیوالا ہے۔ وہ بغیر کسی تغیر کے اول ہے اور بغیر کسی جگہ میں ہونے کے آخر ہے سوائے اس کی ذات کے ہر شے ہلاک ہونے والی ہے۔ خلق اور امر کا تعلق اسی سے ہے وہ ذات پاک رب العالمین ہے افسوس اے سائل تجھ پر میرا رب وہ ہے جس کو اوہام نہیں گھیرتے اور شبہات اس کے ساخت قدس میں داخل نہیں ہوتے، حدوث کا اس سے تعلق نہیں اس سے کسی چیز کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا۔ وہ کوئی کام کر کے نادم نہیں ہوتا نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ آسمانوں میں زمین میں جو ان کے درمیان ہے اور جو زمین کے نیچے ہے سب اسی کا ہے۔

حدیث نمبر 4

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ رَفَعَهُ قَالَ اجْتَمَعَتِ الْيَهُودُ إِلَى رَأْسِ الْجَالُوتِ فَقَالُوا لَهُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ عَالِمٌ يَعْنُونَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَانْطَلِقْ بِنَا إِلَيْهِ نَسْأَلْهُ فَأَتَوْهُ فَقِيلَ لَهُمْ هُوَ فِي الْقَصْرِ فَانْتَظَرُوهُ حَتَّى خَرَجَ فَقَالَ لَهُ رَأْسُ الْجَالُوتِ جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ فَقَالَ سَلْ يَا يَهُودِيُّ عَمَّا بَدَا لَكَ فَقَالَ أَسْأَلُكَ عَنْ رَبِّكَ مَتَى كَانَ فَقَالَ كَانَ بِلا كَيْنُونِيَّةٍ كَانَ بِلا كَيْفٍ كَانَ لَمْ يَزَلْ بِلا كَمٍّ وَبِلا كَيْفٍ كَانَ لَيْسَ لَهُ قَبْلٌ هُوَ قَبْلَ الْقَبْلِ بِلا قَبْلٍ وَلا غَايَةٍ وَلا مُنْتَهًى انْقَطَعَتْ عَنْهُ الْغَايَةُ وَهُوَ غَايَةُ كُلِّ غَايَةٍ فَقَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ امْضُوا بِنَا فَهُوَ أَعْلَمُ مِمَّا يُقَالُ فِيهِ۔

کچھ یہودی راس الجالوت کے پاس جمع ہوئے اور کہا کہ یہ شخص (امیر المومنین) عالم ہے ہمارے ساتھ ان کے پاس چلو تاکہ ان سے سوال کریں۔ پس وہ آئے ان سے کہا گیا حضرت قصر میں ہیں جب آپ برآمد ہوئے تو راس الجالوت نے کہا ہم آپ سے سوال کرنے آئے ہیں، فرمایا جو چاہو پوچھو۔ اس نے کہا میں آپ کے رب کے متعلق پوچھتا ہوں کہ وہ کب سے ہے، فرمایا اس کے ہونے کی ابتداء نہیں نہ اس کے لیے کوئی کیفیت ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے بغیر کسی مدت اور کیفیت کے وہ ہے اور اس کے قبل کوئی نہیں اور پہلے سے پہلے اس کی کوئی حد و انتہا نہیں، انتہا کا تعلق ہی اس سے نہیں، وہ ہر انتہا کی انتہا ہے۔ راس الجالوت نے اپنے ساتھیوں سے کہا، چلو یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے بڑے عالم ہیں۔

حدیث نمبر 5

وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَوْصِلِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ جَاءَ حِبْرٌ مِنَ الاحْبَارِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَتَى كَانَ رَبُّكَ فَقَالَ لَهُ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ وَمَتَى لَمْ يَكُنْ حَتَّى يُقَالَ مَتَى كَانَ كَانَ رَبِّي قَبْلَ الْقَبْلِ بِلا قَبْلٍ وَبَعْدَ الْبَعْدِ بِلا بَعْدٍ وَلا غَايَةَ وَلا مُنْتَهَى لِغَايَتِهِ انْقَطَعَتِ الْغَايَاتُ عِنْدَهُ فَهُوَ مُنْتَهَى كُلِّ غَايَةٍ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَ فَنَبِيٌّ أَنْتَ فَقَالَ وَيْلَكَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِ مُحَمَّدٍ ﷺ وَرُوِيَ أَنَّهُ سُئِلَ أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ سَمَاءً وَأَرْضاً فَقَالَ علیہ السلام أَيْنَ سُؤَالٌ عَنْ مَكَانٍ وَكَانَ الله وَلا مَكَانَ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ یہودیوں کا ایک عالم امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا یہ بتائیے کہ آپ کا رب کب سے ہے، فرمایا تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے۔ وہ کب نہ تھا کہ یہ کہا جائے کہ وہ کب سے ہے وہ ہر شے سے پہلے ہے اس سے پہلے کچھ نہیں وہ ہر شے کے بعد ہے اس کے بعد کچھ نہیں۔ اس کے لیے انتہا نہیں۔ اس نے کہا کیا آپ نبی ہیں، فرمایا وائے ہو تجھ پر میں محمد ﷺ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سے پوچھا گیا ہمارا رب کہاں تھا زمین و آسمان پیدا کرنے سے پہلے، فرمایا یہ سوال مکان سے ہے اور خدا کے لیے مکان نہیں۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ لِلْيَهُودِ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيّاً علیہ السلام مِنْ أَجْدَلِ النَّاسِ وَأَعْلَمِهِمْ اذْهَبُوا بِنَا إِلَيْهِ لَعَلِّي أَسْأَلُهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ وَأُخَطِّئُهُ فِيهَا فَأَتَاهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ مَسْأَلَةٍ قَالَ سَلْ عَمَّا شِئْتَ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَتَى كَانَ رَبُّنَا قَالَ لَهُ يَا يَهُودِيُّ إِنَّمَا يُقَالُ مَتَى كَانَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ فَكَانَ مَتَى كَانَ هُوَ كَائِنٌ بِلا كَيْنُونِيَّةٍ كَائِنٍ كَانَ بِلا كَيْفٍ يَكُونُ بَلَى يَا يَهُودِيُّ ثُمَّ بَلَى يَا يَهُودِيُّ كَيْفَ يَكُونُ لَهُ قَبْلٌ هُوَ قَبْلَ الْقَبْلِ بِلا غَايَةٍ وَلا مُنْتَهَى غَايَةٍ وَلا غَايَةَ إِلَيْهَا انْقَطَعَتِ الْغَايَاتُ عِنْدَهُ هُوَ غَايَةُ كُلِّ غَايَةٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّ دِينَكَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا خَالَفَهُ بَاطِلٌ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ راس الجالوت نے کہا کہ مسلمانوں کا خیال ہے کہ حضرت علی معارف یقینیہ کے سب سے بڑے جاننے والے ہیں۔ میرے ساتھ ان کے پاس چلو تاکہ میں ایک سوال ایسا کروں کی ان کی خطا ظاہر ہو جائے۔ اس نے امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا، میں آپ سے ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں۔ فرمایا جو چاہے پوچھ۔ اس نے کہا یہ بتائیے کہ ہمارا رب کب سے ہے، فرمایا کب سے ہونا تو اس کے لیے کہا جائے گا جو پہلے نہ ہو۔ وہ ہمیشہ سے ہے اس کے لیے کوئی وقت اور زمانہ نہیں وہ بغیر کسی کیفیت کے ہے، ہاں ہاں اے یہودی اس سے پہل کا کیا تعلق جو قبل سے قبل ہو بغیر کسی انتہا کے اس کے لیے تو حدود انتہا ہے ہی نہیں۔ تمام حدیں اس کے ساحتِ جلال تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں وہ ہر انتہا کی انتہا ہے یہ سن کر اس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا دین حق ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ باطل ہے۔

حدیث نمبر 7

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ رَفَعَهُ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر علیہ السلام أَ كَانَ الله وَلا شَيْءَ قَالَ نَعَمْ كَانَ وَلا شَيْءَ قُلْتُ فَأَيْنَ كَانَ يَكُونُ قَالَ وَكَانَ مُتَّكِئاً فَاسْتَوَى جَالِساً وَقَالَ أَحَلْتَ يَا زُرَارَةُ وَسَأَلْتَ عَنِ الْمَكَانِ إِذْ لا مَكَانَ۔

زرارہ نے کہا میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا، اللہ تھا اور اس کے سوا کچھ نہیں تھا۔ فرمایا ہاں کوئی چیز نہ تھی، میں نے کہا پھر وہ کہاں تھا۔ حضرت تکیہ لگائے بیٹھے تھے پس سیدھے ہوئے اور فرمایا ، تو نے غلط خیال کر کے محال بات پوچھی۔ اے زرارہ تو نے مکان کا سوال اس کے لیے کیا جس کے لیے مکان نہیں۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَوْصِلِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ أَتَى حِبْرٌ مِنَ الاحْبَارِ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَتَى كَانَ رَبُّكَ قَالَ وَيْلَكَ إِنَّمَإ؛ّ يُقَالُ مَتَى كَانَ لِمَا لَمْ يَكُنْ فَأَمَّا مَا كَانَ فَلا يُقَالُ مَتَى كَانَ كَانَ قَبْلَ الْقَبْلِ بِلا قَبْلٍ وَبَعْدَ الْبَعْدِ بِلا بَعْدٍ وَلا مُنْتَهَى غَايَةٍ لِتَنْتَهِيَ غَايَتُهُ فَقَالَ لَهُ أَ نَبِيٌّ أَنْتَ فَقَالَ لامِّكَ الْهَبَلُ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه )۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک یہودی عالم حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ یہ بتائیے کہ آپ کا رب کب سے ہے، فرمایا وائے ہو تجھ پر کب کا سوال تو اس کے لیے ہو گا جو پہلے نہ ہو اور جو پہلے ہو اس کے لیے کب کیسا۔ وہ ہر پہلے سے پہلے ہے اور ہر بعد کے بعد ہے اس کے حد و انتہا نہیں وہ ہر انتہا کی انتہا ہے اس نے کہا کیا آپ نبی ہیں۔ فرمایا نہیں، تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے، میں تو غلامانِ محمدﷺ سے ایک غلام ہوں۔