مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(2-10)

اس وصف کی نہی جو خدا نے اپنے لیے نہیں بیان کیا

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ مَعْرُوفٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ عَتِيكٍ الْقَصِيرِ قَالَ كَتَبْتُ عَلَى يَدَيْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَعْيَنَ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّ قَوْماً بِالْعِرَاقِ يَصِفُونَ الله بِالصُّورَةِ وَبِالتَّخْطِيطِ فَإِنْ رَأَيْتَ جَعَلَنِيَ الله فِدَاكَ أَنْ تَكْتُبَ إِلَيَّ بِالْمَذْهَبِ الصَّحِيحِ مِنَ التَّوْحِيدِ فَكَتَبَ إِلَيَّ سَأَلْتَ رَحِمَكَ الله عَنِ التَّوْحِيدِ وَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ مَنْ قِبَلَكَ فَتَعَالَى الله الَّذِي لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ تَعَالَى عَمَّا يَصِفُهُ الْوَاصِفُونَ الْمُشَبِّهُونَ الله بِخَلْقِهِ الْمُفْتَرُونَ عَلَى الله فَاعْلَمْ رَحِمَكَ الله أَنَّ الْمَذْهَبَ الصَّحِيحَ فِي التَّوْحِيدِ مَا نَزَلَ بِهِ الْقُرْآنُ مِنْ صِفَاتِ الله جَلَّ وَعَزَّ فَانْفِ عَنِ الله تَعَالَى الْبُطْلانَ وَالتَّشْبِيهَ فَلا نَفْيَ وَلا تَشْبِيهَ هُوَ الله الثَّابِتُ الْمَوْجُودُ تَعَالَى الله عَمَّا يَصِفُهُ الْوَاصِفُونَ وَلا تَعْدُوا الْقُرْآنَ فَتَضِلُّوا بَعْدَ الْبَيَانِ۔

عبدالرحیم سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو خط میں لکھا کہ عراق کی ایک قوم اللہ کی تعریف صورت اور خط و خال سے کرتی ہے۔ آپ مجھے توحید کے بارے میں مذہبِ صحیح سے مطلع فرمائیں۔ حضرت نے مجھے لکھا، خدا تم پر رحمت نازل کرے تم نے توحید کے متعلق اور پہلے لوگوں کے مذہب کے متعلق سوال کیا ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ اس سے بلند تر ہے کہ کوئی چیز اس کی مثل ہو۔ وہ بڑا سننے والا اور دیکھنے والا ہے اس کا غلط وصف کرنے والا اور مخلوق سے اس کی تشبیہہ دینے والا اللہ پر افتراء کرنیوالوں میں ہے، خدا کی رحمت ہو تم پر۔ یہ جان لو کہ توحید کے بارے میں مذہبِ صحیح وہی ہے جو قرآن نے صفاتِ باری تعالیٰ بیان کی ہیں۔ بطلان اور تشبیہہ کو اللہ سے دور رکھو۔ نہ تو اس کی بیان کردہ صفات کی نفی کرنی چاہیے اور نہ اسے اس کی مخلوق سے تشبیہہ دینی چاہیے اس کی ذات ثابت و موجود ہے اور بلند تر ہے ان غلط اوصاف سے جن کو لوگ اس کے متعلق بیان کرتے ہیں۔ قرآن سے تجاوز نہ کرو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قَالَ لِي عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) يَا أَبَا حَمْزَةَ إِنَّ الله لا يُوصَفُ بِمَحْدُودِيَّةٍ عَظُمَ رَبُّنَا عَنِ الصِّفَةِ فَكَيْفَ يُوصَفُ بِمَحْدُودِيَّةٍ مَنْ لا يُحَدُّ وَلا تُدْرِكُهُ الابْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الابْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ۔

ابو حمزہ سے مروی ہے کہ میں نے امام زین العابدین علیہ السلام سے توحید کے متعلق پوچھا۔ فرمایا خدا کی تعریف محدود صورتوں سے نہیں کی جاتی۔ وہ زاید بر ذات صفتوں سے مبرّہ ہے پھر محدودیت سے اس کا کیا تعلق۔ بینائیاں اس کا ادراک نہیں کرتیں وہ ابصار کا ادراک کرتا ہے وہ لطیف و خبیر ہے۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْخَزَّازِ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالا دَخَلْنَا عَلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام فَحَكَيْنَا لَهُ أَنَّ مُحَمَّداً ﷺ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ الشَّابِّ الْمُوَفَّقِ فِي سِنِّ أَبْنَاءِ ثَلاثِينَ سَنَةً وَقُلْنَا إِنَّ هِشَامَ بْنَ سَالِمٍ وَصَاحِبَ الطَّاقِ وَالْمِيثَمِيَّ يَقُولُونَ إِنَّهُ أَجْوَفُ إِلَى السُّرَّةِ وَالْبَقِيَّةُ صَمَدٌ فَخَرَّ سَاجِداً لله ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا عَرَفُوكَ وَلا وَحَّدُوكَ فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَصَفُوكَ سُبْحَانَكَ لَوْ عَرَفُوكَ لَوَصَفُوكَ بِمَا وَصَفْتَ بِهِ نَفْسَكَ سُبْحَانَكَ كَيْفَ طَاوَعَتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يُشَبِّهُوكَ بِغَيْرِكَ اللهمَّ لا أَصِفُكَ إِلا بِمَا وَصَفْتَ بِهِ نَفْسَكَ وَلا أُشَبِّهُكَ بِخَلْقِكَ أَنْتَ أَهْلٌ لِكُلِّ خَيْرٍ فَلا تَجْعَلْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا فَقَالَ مَا تَوَهَّمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَوَهَّمُوا الله غَيْرَهُ ثُمَّ قَالَ نَحْنُ آلُ مُحَمَّدٍ النَّمَطُ الاوْسَطُ الَّذِي لا يُدْرِكُنَا الْغَالِي وَلا يَسْبِقُنَا التَّالِي يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ حِينَ نَظَرَ إِلَى عَظَمَةِ رَبِّهِ كَانَ فِي هَيْئَةِ الشَّابِّ الْمُوَفَّقِ وَسِنِّ أَبْنَاءِ ثَلاثِينَ سَنَةً يَا مُحَمَّدُ عَظُمَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَكُونَ فِي صِفَةِ الْمَخْلُوقِينَ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ مَنْ كَانَتْ رِجْلاهُ فِي خُضْرَةٍ قَالَ ذَاكَ مُحَمَّدٌ كَانَ إِذَا نَظَرَ إِلَى رَبِّهِ بِقَلْبِهِ جَعَلَهُ فِي نُورٍ مِثْلِ نُورِ الْحُجُبِ حَتَّى يَسْتَبِينَ لَهُ مَا فِي الْحُجُبِ إِنَّ نُورَ الله مِنْهُ أَخْضَرُ وَمِنْهُ أَحْمَرُ وَمِنْهُ أَبْيَضُ وَمِنْهُ غَيْرُ ذَلِكَ يَا مُحَمَّدُ مَا شَهِدَ لَهُ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ فَنَحْنُ الْقَائِلُونَ بِهِ۔

ابراہیم محمد بن الحسین سے مروی ہے کہ ان دونوں نے کہا ہم امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے بیان کیا، حضرت رسولِ خدا نے شب معراج اپنے رب کو ایک کامل نوجوان کی صورت میں دیکھا جن کا سن تیس برس کا تھا اور ہم نے یہ بھی کہا ہشام ابن سالم مومن طاق اور یتیمی کہتے ہیں کہ خالی ناف تک اور بقیہ روحانی ہے۔ حضرت سجدہ میں گئے اور فرمایا اے معبود تو پاک ذات ہے لوگوں نے تجھ کو پہچانا نہیں اور تجھے واحد نہ جانا اسی لیے تیرا وصف غلط بیان کرتے جس طرح تو نے خود اپنا وصف بیان کیا ہے۔ کیسا مطیع بنایا ان کے نفسوں نے ان کو کہ تجھے مشابہ قرار دیا تیرے غیر سے خداوندا میں تیرا وہی وصف بیان کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات کا وصف خود بیان کیا ہے۔ میں تیری مخلوق سے تجھے مشابہ قرار نہیں دیتا۔ تو ہر اچھائی کا اہل ہے۔ پس مجھے ظالموں سے قرار نہ دے۔ پھر حضرت ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، جو ذات تم اپنے خیال میں لیتے ہو وہ اللہ کا غیر ہے۔ پھر فرمایا ہم اولادِ رسول ہیں، ہم امتِ وسط ہیں۔ غالی ہماری معرفت حاصل نہیں کر سکتا اور پیچھے آنے والا ہم پر سبقت نہیں کرتا۔ اے محمد آگاہ رہو جب رسول اللہ نے اپنے رب کی عظمت پر نظر کی تو وہ اس وقت ایک کامل نوجوان کی صورت میں تھا جو تیس سال کا ہو۔ اے محمد پاک ہے میرا رب اس سے کہ اس میں مخلوق کی صفت ہو۔ میں نے کہا وہ کون تھا جس کے دونوں پاؤں سبزہ میں تھے۔ فرمایا جب آنحضرت ﷺ نے اپنے قلب کو دیکھا تو خدا نے ان کے لیے ایک نور کو پیدا کیا جو نورِ حجاب کی طرح تھا اس سے حجاب کے اندر کی شے روشن ہو گئی۔ یہ نورِ خدا سبزو سرخ و سفید وغیرہ تھا۔ اے محمد جو کتاب و سنت میں ہے ہم اسی کی گواہی دیتے ہیں اور اسی کے قائل ہیں۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرٍ الْبَرْقِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَامِرٍ الْقَصَبَانِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ الْجَهْمِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ قَالَ لَوِ اجْتَمَعَ أَهْلُ السَّمَاءِ وَالارْضِ أَنْ يَصِفُوا الله بِعَظَمَتِهِ لَمْ يَقْدِرُوا۔

فرمایا حضرت علی بن الحسین علیہ السلام نے اگر تمام آسمانوں اور زمینوں والے جمع ہو کر خدا کی عظمت کی تعریف کرنا چاہیں تو اس پر قادر نہ ہوں گے۔

حدیث نمبر 5

سَهْلٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْهَمَذَانِيِّ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى الرَّجُلِ علیہ السلام أَنَّ مَنْ قِبَلَنَا مِنْ مَوَالِيكَ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي التَّوْحِيدِ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ جِسْمٌ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ صُورَةٌ فَكَتَبَ علیہ السلام بِخَطِّهِ سُبْحَانَ مَنْ لا يُحَدُّ وَلا يُوصَفُ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ أَوْ قَالَ الْبَصِيرُ۔

ابراہیم بن محمد ہمدانی سے مروی ہے کہ میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو لکھا کہ ہم سے پہلے آپ کے دوستوں نے توحید کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ جسم ہے بعض کہتے ہیں وہ صورت ہے۔ حضرت نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا، پاک ہے وہ ذات جس کے لیے حد نہیں اور جس کا وصف اوصافِ مخلوق سے نہیں کیا جاتا۔ اس کی مثل کوئی شے نہیں۔

حدیث نمبر 6

سَهْلٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ كَتَبَ أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ علیہ السلام إِلَى أَبِي أَنَّ الله أَعْلَى وَأَجَلُّ وَأَعْظَمُ مِنْ أَنْ يُبْلَغَ كُنْهُ صِفَتِهِ فَصِفُوهُ بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ وَكُفُّوا عَمَّا سِوَى ذَلِكَ۔

محمد بن حکیم سے مروی ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے میرے باپ کو لکھا کہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ و اجل و اعظم ہے اس سے کہ کوئی اس کی صفت کی حقیقت کو پہنچ سکے۔ پس اس کی وہی تعریف کرو جو اس نے اپنے نفس کی خود کی ہے۔ اس کے سوا تعریف سے بچو۔

حدیث نمبر 7

سَهْلٌ عَنِ السِّنْدِيِّ بْنِ الرَّبِيعِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَفْصٍ أَخِي مُرَازِمٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ علیہ السلام عَنْ شَيْءٍ مِنَ الصِّفَةِ فَقَالَ لا تَجَاوَزْ مَا فِي الْقُرْآنِ۔

مفضّل سے مروی ہے کہ میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا صفات باری تعالیٰ کے متعلق۔ فرمایا قرآن سے تجاوز نہ کرو۔

حدیث نمبر 8

سَهْلٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْقَاسَانِيِّ قَالَ كَتَبْتُ إِلَيْهِ علیہ السلام أَنَّ مَنْ قِبَلَنَا قَدِ اخْتَلَفُوا فِي التَّوْحِيدِ قَالَ فَكَتَبَ علیہ السلام سُبْحَانَ مَنْ لا يُحَدُّ وَلا يُوصَفُ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔

محمد بن علی قاسانی سے مروی ہے کہ میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو لکھا کہ ہم سے پہلے لوگوں نے توحید کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ حضرت نے لکھا خدا کے لیے حد نہیں اور نہ صفات مخلوق سے متصف ہے اس کی مثل کوئی شے نہیں وہ سمیع و بصیر ہے۔

حدیث نمبر 9

سَهْلٌ عَنْ بِشْرِ بْنِ بَشَّارٍ النَّيْسَابُورِيِّ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى الرَّجُلِ علیہ السلام أَنَّ مَنْ قِبَلَنَا قَدِ اخْتَلَفُوا فِي التَّوْحِيدِ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ هُوَ جِسْمٌ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ هُوَ صُورَةٌ فَكَتَبَ إِلَيَّ سُبْحَانَ مَنْ لا يُحَدُّ وَلا يُوصَفُ وَلا يُشْبِهُهُ شَيْءٌ وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔

بشر سے مروی ہے کہ میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو لکھا کہ ہم سے پہلے لوگوں نے توحید میں اختلاف کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں وہ جسم ہے بعض کہتے ہیں وہ صورت ہے۔ فرمایا پاک ہے وہ ذات جس کی تعریف حد سے نہیں کی جاتی نہ مخلوق کے وصف سے اس کا وصف کیا جاتا ہے اور نہ اس سے کوئی شے مشابہ ہے اور وہ سمیع و بصیر ہے۔

حدیث نمبر 10

سَهْلٌ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي مُحَمَّدٍ علیہ السلام سَنَةَ خَمْسٍ وَخَمْسِينَ وَمِائَتَيْنِ قَدِ اخْتَلَفَ يَا سَيِّدِي أَصْحَابُنَا فِي التَّوْحِيدِ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ هُوَ جِسْمٌ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ هُوَ صُورَةٌ فَإِنْ رَأَيْتَ يَا سَيِّدِي أَنْ تُعَلِّمَنِي مِنْ ذَلِكَ مَا أَقِفُ عَلَيْهِ وَلا أَجُوزُهُ فَعَلْتَ مُتَطَوِّلاً عَلَى عَبْدِكَ فَوَقَّعَ بِخَطِّهِ علیہ السلام سَأَلْتَ عَنِ التَّوْحِيدِ وَهَذَا عَنْكُمْ مَعْزُولٌ الله وَاحِدٌ أَحَدٌ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَدٌ خَالِقٌ وَلَيْسَ بِمَخْلُوقٍ يَخْلُقُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَا يَشَاءُ مِنَ الاجْسَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ وَلَيْسَ بِجِسْمٍ وَيُصَوِّرُ مَا يَشَاءُ وَلَيْسَ بِصُورَةٍ جَلَّ ثَنَاؤُهُ وَتَقَدَّسَتْ أَسْمَاؤُهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ شِبْهٌ هُوَ لا غَيْرُهُ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔

سہل سے مروی ہے میں نے ابو محمد امام حسن عسکری علیہ السلام کو 255ھ میں لکھا کہ اے میرے سردار ہمارے اصحاب نے توحید کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں وہ جسم ہے بعض کہتے ہیں وہ صورت ہے۔ اگر آپ مجھے تعلیم دیں تو میں اس پر قائم رہوں اور تجاوز نہ کروں اور آپ کے غلام پر آپ کا بڑا احسان ہو۔ آپ نے اپنے دستِ مبارک سے لکھا تم نے توحید سے متعلق سوال کیا۔ جو صورتیں تم نے بیان کیں تم ان سے الگ ہو۔ اللہ ایک ہے نہ اس نے کسی کو پیدا کیا اور نہ کسی نے اس کو، نہ اس کا کوئی مثل ہے نہ مانند، وہ خالق ہے مخلوق نہیں۔ اجسام وغیرہ سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسم نہیں وہ جیسی صورت چاہتا ہے بنا دیتا ہے وہ خود صورت نہیں۔ اس کی ثناء میں بندگی ہے اس کے اسماء میں تقدیس ہے وہ بَری ہے اس سے کہ کوئی اس سے مشابہ ہو۔ اس کی مثل کوئی نہیں وہ سمیع و بصیر ہے۔

حدیث نمبر 11

مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ إِنَّ الله لا يُوصَفُ وَكَيْفَ يُوصَفُ وَقَدْ قَالَ فِي كِتَابِهِ وَما قَدَرُوا الله حَقَّ قَدْرِهِ فَلا يُوصَفُ بِقَدَرٍ إِلا كَانَ أَعْظَمَ مِنْ ذَلِكَ۔

فضل بن یسار سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ خدا کا وصف بیان نہیں کیا جا سکتا اور کیونکر بیان کیا جائے جبکہ وہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے کہ لوگوں نے اس کی تعظیم کا حق ادا نہیں کیا۔ پس جس انداز سے اس کی تعظیم کی جائے گی وہ اس سے کہیں زیادہ ہو گا۔

حدیث نمبر 12

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَعَنْ غَيْرِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ إِنَّ الله عَظِيمٌ رَفِيعٌ لا يَقْدِرُ الْعِبَادُ عَلَى صِفَتِهِ وَلا يَبْلُغُونَ كُنْهَ عَظَمَتِهِ لا؛ّّ تُدْرِكُهُ الابْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الابْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ وَلا يُوصَفُ بِكَيْفٍ وَلا أَيْنٍ وَحَيْثٍ وَكَيْفَ أَصِفُهُ بِالْكَيْفِ وَهُوَ الَّذِي كَيَّفَ الْكَيْفَ حَتَّى صَارَ كَيْفاً فَعُرِفَتِ الْكَيْفُ بِمَا كَيَّفَ لَنَا مِنَ الْكَيْفِ أَمْ كَيْفَ أَصِفُهُ بِأَيْنٍ وَهُوَ الَّذِي أَيَّنَ الايْنَ حَتَّى صَارَ أَيْناً فَعُرِفَتِ الايْنُ بِمَا أَيَّنَ لَنَا مِنَ الايْنِ أَمْ كَيْفَ أَصِفُهُ بِحَيْثٍ وَهُوَ الَّذِي حَيَّثَ الْحَيْثَ حَتَّى صَارَ حَيْثاً فَعُرِفَتِ الْحَيْثُ بِمَا حَيَّثَ لَنَا مِنَ الْحَيْثِ فَالله تَبَارَكَ وَتَعَالَى دَاخِلٌ فِي كُلِّ مَكَانٍ وَخَارِجٌ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ لا تُدْرِكُهُ الابْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الابْصَارَ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر ہے۔ بندے اس کی صفت بیان کرنے پر قادر نہیں اور نہ اس کی عظمت کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔ بینائیاں اس کو نہیں پاتیں وہ بینائیوں کا ادراک کرتا ہے وہ لطیف و خبیر ہے اس کا وصف کیفیت سے نہیں ہوتا نہ جگہ اور حیثیت سے اور کیفیت سے۔ اس کی تعریف کیونکر ہو جبکہ وہ کیفیت کا پیدا کرنے والا ہے وہ کیونکر کیفیت سے متعلق ہو گا۔ ہم نے کیف کی معرفت حاصل کی ہے جبکہ اس نے ہم کو متکیف بہ کیفیت کیا ہے۔
ہم کیونکر موصوف کریں گے اس کو جگہ سے درآنحالیکہ وہ جگہ کا پیدا کرنے والا ہے اس کو پیدا کرنے کے بعد جگہ کا اطلاق ہوا ہے پس حادث ہے۔ ہم نے جگہ کی معرفت اس وقت حاصل کی کہ اس نے جگہ کو بنایا اور کسی حالت و حیثیت سے ہم اس کو موصوف کیسے کر سکتے ہیں جبکہ ہر حیثیت کو حیثیت اس نےدی ہے۔
بس خدا اپنی قدرت سے ہر جگہ میں داخل ہے اور ہر جگہ سے علیحدہ ہے (اس کے لیے نہ کوئی کیفیت ہے نہ مکان نہ حیثیت، وہ ان سب چیزون کا خالق ہے اور یہ اس کی مخلوق اور حادث ہیں اور مخلوق کا وصف خالق سے نہیں ہو سکتا) خدا کا ادراک بینائیاں نہیں کرتیں البتہ وہ ان کا ادراک کرتا ہے اور وہ لطیف و خبیر ہے۔