اصولِ کافی اردو

مؤلف محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مولانا سید ظفر حسن نقوی

کتاب العقل والجہل

حدیث نمبر 1

أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنِي عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا مِنْهُمْ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ لَمَّا خَلَقَ الله الْعَقْلَ اسْتَنْطَقَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ ثُمَّ قَالَ وَعِزَّتِي وَجَلالِي مَا خَلَقْتُ خَلْقاً هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْكَ وَلا أَكْمَلْتُكَ إِلا فِيمَنْ أُحِبُّ أَمَا إِنِّي إِيَّاكَ آمُرُ وَإِيَّاكَ أَنْهَى وَإِيَّاكَ أُعَاقِبُ وَإِيَّاكَ أُثِيبُ۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب خدا نے عقل کو پیدا کیا تو اسے قوتِ گویائی دے کر فرمایا آگے آ، وہ آگے آئی، پھر کہا پیچھے ہٹ، وہ پیچھے ہٹی، پھر فرمایا اپنے عزت و جلال کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں پیدا کی، میں تجھ کو صرف اس شخص میں کامل کروں گا جس کو میں دوست رکھتا ہوں میں تیرے پختہ ہونے پر امر و نہی کرتا ہوں اور ثواب دیتا ہوں۔
توضیح: اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مدار تکلیف بشری عقل ہے جب تک کہ عقل پختہ نہ ہو احکام الہٰیہ کا تعلق انسان سے نہیں ہوتا۔ دوسرے یہاں عقل سے مراد خلق تدبیری نہیں بلکہ تقدیری ہے یعنی بطور استعارہ تمثیلیہ خلق کہا گیا ہے۔ تیسرے عقلِ صحیح کی تعریف یہ ہے کہ جہاں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں آگے بڑھے، جہاں پیچھے ہٹنے کا حکم ہے وہاں پیچھے ہٹے، چوتھے کمال عقل کا مظہر انبیاء و مرسلین اور آئمہ طاہرین ہیں جن کی عقل وقتِ پیدائش ہی کامل ہوتی ہے۔ پانچویں خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عقل ہے کیونکہ وہ ذریعہ معرفت باری تعالیٰ ہے ، چھٹے یہی عقل وجہ فضیلت ہے تمام مخلوق پر۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ عَنِ الاصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ عَنْ علي علیہ السلام قَالَ هَبَطَ جَبْرَئِيلُ عَلَى آدَمَ علیہ السلام فَقَالَ يَا آدَمُ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أُخَيِّرَكَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلاثٍ فَاخْتَرْهَا وَدَعِ اثْنَتَيْنِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ يَا جَبْرَئِيلُ وَمَا الثَّلاثُ فَقَالَ الْعَقْلُ وَالْحَيَاءُ وَالدِّينُ فَقَالَ آدَمُ إِنِّي قَدِ اخْتَرْتُ الْعَقْلَ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ لِلْحَيَاءِ وَالدِّينِ انْصَرِفَا وَدَعَاهُ فَقَالا يَا جَبْرَئِيلُ إِنَّا أُمِرْنَا أَنْ نَكُونَ مَعَ الْعَقْلِ حَيْثُ كَانَ قَالَ فَشَأْنَكُمَا وَعَرَجَ۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جب جبرئیل زمین پر آئے تو آدم سے کہا ، مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہیں تین چیزوں میں سے ایک کے لینے اور دو کو چھوڑنے کا اختیار دوں ، آدم نے پوچھا وہ تین کیا ہیں، جبرئیل نے کہا عقل حیاء اور دین ہیں، آدم نے کہا میں نے عقل کو لے لیا ، جبریل نے حیاءو دین سے کہا تم واپس جاؤ اور عقل کو چھوڑ دو ، انھوں نے کہا اے جبرئیل ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہم عقل کے ساتھ ہیں جہاں کہیں بھی وہ رہے ۔ جبرئیل نے کہا ٹھیک ہے اور آسمان پر چلے گئے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حیاءاور دین عقل کے ساتھ ہیں اگر عقل نہیں تو پھر انسان کا واسطہ حیاء سے رہتا ہے نہ دین سے، خدا کے دین کو چھوڑنا اس کی دلیل ہے کہ عقل رُخصت ہو چکی۔

حدیث نمبر 3

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا الْعَقْلُ قَالَ مَا عُبِدَ بِهِ الرَّحْمَنُ وَاكْتُسِبَ بِهِ الْجِنَانُ قَالَ قُلْتُ فَالَّذِي كَانَ فِي مُعَاوِيَةَ فَقَالَ تِلْكَ النَّكْرَاءُ تِلْكَ الشَّيْطَنَةُ وَهِيَ شَبِيهَةٌ بِالْعَقْلِ وَلَيْسَتْ بِالْعَقْلِ۔

کسی نے صادقِ آل محمدعلیہ السلام سے پوچھا، عقل کی تعریف کیا ہے، فرمایا جس سے رحمٰن کی عبادت کی جائے اور جنت کو حاصل کیا جائے ، پوچھا معاویہ میں کیا چیز تھی، فرمایا نکراء ، نکراء سے مراد وہ چیز ہے جس سے دور بھاگنا چاہیے(چالاکی مکاری)۔
مطلب ہے کہ اگر پیروی حق نہ کی جائے تو یہ نشان عقل نہیں بلکہ عقل سی ملتی جلتی ایک چیز ہے جسے عربی زبان میں نکرہ کہتے ہیں جو شخص خدا کی عبادت نہیں کرتا وہ اپنے لئے زادِ آخرت مہیا نہیں کرتا اس نے عقل کے تقاضہ کو پورا نہیں کیا۔ عقل اس لئے خدا نے دی ہے کہ اس کی معرفت حاصل کر کے اس کے احکام پر عمل کیا جائے جس نے اس غرض کو پورا نہ کیا اس نے عقل کے بجائے اغوائےشیطانی سے کام لیا۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قَالَ سَمِعْتُ الرِّضَا علیہ السلام يَقُولُ صَدِيقُ كُلِّ امْرِئٍ عَقْلُهُ وَعَدُوُّهُ جَهْلُهُ۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہر شخص کا دوست اس کی عقل ہے اور اس کا دشمن اس کی جہالت ۔
یعنی جو کوئی عقل رکھتا ہے پیروی حق کرتا ہے اور اس صورت میں دشمن کی دشمنی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی اور اگر عقل نہیں ہے بلکہ جہالت ہے تو کوئی اسے نفع نہیں پہنچا سکتا۔

حدیث نمبر 5

وَعَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ علیہ السلام إِنَّ عِنْدَنَا قَوْماً لَهُمْ مَحَبَّةٌ وَلَيْسَتْ لَهُمْ تِلْكَ الْعَزِيمَةُ يَقُولُونَ بِهَذَا الْقَوْلِ فَقَالَ لَيْسَ أُولَئِكَ مِمَّنْ عَاتَبَ الله إِنَّمَا قَالَ الله فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الابْصارِ۔

راوی نے امام رضا علیہ السلام سے کہا ہمارے پاس ایک ایسی جماعت ہے کہ ان کو آپ کی محبت تو ہے لیکن وہ بات نہیں جو دوستی کے لائق ہو کیوں کہ انھوں نے اپنے دین کو محکمات قرآن سے علم و یقین و بصیرت کے ساتھ نہیں لیا جس طرح ہم اقرار کرتے ہیں اس طرح نہیں کرتے کیا وہ لوگ مومن ہیں، فرمایا یہ لوگ ان سے نہیں جن کی ادب آموزی خدا نے کی ہے اللہ نے ایسے لوگوں سے خطاب نہیں کیا ۔ عقلمندوں سے خطاب کرتے ہوئے سورہ حشر میں فرمایا ہے اے بصیرت والو! عبرت حاصل کرو۔
یعنے یہ قوم صحیح معنی میں مومن نہیں بلکہ اہلِ شک ہیں۔

حدیث نمبر 6

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الرَّازِيِّ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام مَنْ كَانَ عَاقِلاً كَانَ لَهُ دِينٌ وَمَنْ كَانَ لَهُ دِينٌ دَخَلَ الْجَنَّةَ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جو صاحب عقل ہے اس کا ایمان حقیقی ہے وہ داخل جنت ہو گا۔

حدیث نمبر 7

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَقْطِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ إِنَّمَا يُدَاقُّ الله الْعِبَادَ فِي الْحِسَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى قَدْرِ مَا آتَاهُمْ مِنَ الْعُقُولِ فِي الدُّنْيَا۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ خداوند عالم روزِ قیامت اپنے بندوں سے محاسبہ اسی لحاظ سے کریگا جتنی عقل ان کو دنیا میں دی ہے۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ الاحْمَرِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام فُلانٌ مِنْ عِبَادَتِهِ وَدِينِهِ وَفَضْلِهِ فَقَالَ كَيْفَ عَقْلُهُ قُلْتُ لا أَدْرِي فَقَالَ إِنَّ الثَّوَابَ عَلَى قَدْرِ الْعَقْلِ إِنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ يَعْبُدُ الله فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ خَضْرَاءَ نَضِرَةٍ كَثِيرَةِ الشَّجَرِ ظَاهِرَةِ الْمَاءِ وَإِنَّ مَلَكاً مِنَ الْمَلائِكَةِ مَرَّ بِهِ فَقَالَ يَا رَبِّ أَرِنِي ثَوَابَ عَبْدِكَ هَذَا فَأَرَاهُ الله تَعَالَى ذَلِكَ فَاسْتَقَلَّهُ الْمَلَكُ فَأَوْحَى الله تَعَالَى إِلَيْهِ أَنِ اصْحَبْهُ فَأَتَاهُ الْمَلَكُ فِي صُورَةِ إِنْسِيٍّ فَقَالَ لَهُ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا رَجُلٌ عَابِدٌ بَلَغَنِي مَكَانُكَ وَعِبَادَتُكَ فِي هَذَا الْمَكَانِ فَأَتَيْتُكَ لاعْبُدَ الله مَعَكَ فَكَانَ مَعَهُ يَوْمَهُ ذَلِكَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ لَهُ الْمَلَكُ إِنَّ مَكَانَكَ لَنَزِهٌ وَمَا يَصْلُحُ إِلا لِلْعِبَادَةِ فَقَالَ لَهُ الْعَابِدُ إِنَّ لِمَكَانِنَا هَذَا عَيْباً فَقَالَ لَهُ وَمَا هُوَ قَالَ لَيْسَ لِرَبِّنَا بَهِيمَةٌ فَلَوْ كَانَ لَهُ حِمَارٌ رَعَيْنَاهُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ فَإِنَّ هَذَا الْحَشِيشَ يَضِيعُ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ الْمَلَكُ وَمَا لِرَبِّكَ حِمَارٌ فَقَالَ لَوْ كَانَ لَهُ حِمَارٌ مَا كَانَ يَضِيعُ مِثْلُ هَذَا الْحَشِيشِ فَأَوْحَى الله إِلَى الْمَلَكِ إِنَّمَا أُثِيبُهُ عَلَى قَدْرِ عَقْلِهِ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا فلاں شخص اپنی عبادت اور دین و فضل میں ایسا ایساہے۔ فرمایا اس کی عقل کیسی ہے، میں نے کہا یہ میں نہیں جانتا ، فرمایا ثواب بقدر عقل ملتا ہے۔ بنی اسرائیل میں ایک عابد اللہ کی عبادت ایسے جزیرہ میں کر رہا تھا جو نہایت سرسبز و شاداب تھا۔ بہ کثرت درخت تھے اور صاف و شفاف پانی۔ ایک فرشتہ ادھر سے گزرا ، کہنے لگا یارب مجھے اس بندے کا ثواب دکھا دے خدا نے دکھا دیا۔ فرشتہ کو بلحاظ عبادت کم معلوم ہوا ۔ خدا نے وحی کی کہ تو اس کی صحبت میں جا کر رہ۔ فرشتہ بشری صورت میں اس کے پاس گیا۔ اس نے پوچھا تو کون ہے اس نے کہا میں ایک مرد عابد ہوں مجھے پتہ چلا ہے تیرے مکان عبادت کا ، دل چاہا کہ تیرے ساتھ اللہ کی عبادت کروں۔ پس وہ اس کے ساتھ دن بھر رہا ، صبح کو فرشتہ نے کہایہ بڑی فرحت کی جگہ ہے عبادت کے لئے بہت موزوں ہے۔ عابد نے کہا ہاں اچھی ہے مگر ایک بات خرابی کی ہے ، اس نے کہا وہ کیا ہے، کہا ہمارے رب کے پاس کوئی چوپایہ نہیں ، اگر گدھا ہوتا تو ہم چراتے اور یہاں کی گھاس بے کار نہ جاتی ۔ خدا نے فرشتہ کو وحی کی کہ ہم اس کو ثواب بقدر اس کی عقل دیں گے۔

حدیث نمبر 9

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ إِذَا بَلَغَكُمْ عَنْ رَجُلٍ حُسْنُ حَالٍ فَانْظُرُوا فِي حُسْنِ عَقْلِهِ فَإِنَّمَا يُجَازَى بِعَقْلِهِ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم کو کسی شخص کے متعلق اچھی عبادت کا حال معلوم ہو تو یہ دیکھو اس کی عقل کیسی ہے کیونکہ بدلہ عقل کے مطابق دیا جائیگا ۔

حدیث نمبر 10

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ قَالَ ذَكَرْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام رَجُلاً مُبْتَلىً بِالْوُضُوءِ وَالصَّلاةِ وَقُلْتُ هُوَ رَجُلٌ عَاقِلٌ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله وَأَيُّ عَقْلٍ لَهُ وَهُوَ يُطِيعُ الشَّيْطَانَ فَقُلْتُ لَهُ وَكَيْفَ يُطِيعُ الشَّيْطَانَ فَقَالَ سَلْهُ هَذَا الَّذِي يَأْتِيهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ هُوَ فَإِنَّهُ يَقُولُ لَكَ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا جو وضو اور نماز میں مبتلائے وسواس تھا میں نے کہا وہ مرد عاقل ہے ، فرمایا اس کے پاس عقل کہاں جو شیطان کی پیروی کرتا ہے ۔ میں نے کہا یہ کیسے، فرمایا اس سے پوچھو یہ وسواس جو تیرے دل میں پیدا ہوتے ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں وہ کہے گا یہ عمل شیطان ہے۔

حدیث نمبر 11

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ مَا قَسَمَ الله لِلْعِبَادِ شَيْئاً أَفْضَلَ مِنَ الْعَقْلِ فَنَوْمُ الْعَاقِلِ أَفْضَلُ مِنْ سَهَرِ الْجَاهِلِ وَإِقَامَةُ الْعَاقِلِ أَفْضَلُ مِنْ شُخُوصِ الْجَاهِلِ وَلا بَعَثَ الله نَبِيّاً وَلا رَسُولاً حَتَّى يَسْتَكْمِلَ الْعَقْلَ وَيَكُونَ عَقْلُهُ أَفْضَلَ مِنْ جَمِيعِ عُقُولِ أُمَّتِهِ وَمَا يُضْمِرُ النَّبِيُّ ﷺ فِي نَفْسِهِ أَفْضَلُ مِنِ اجْتِهَادِ الْمُجْتَهِدِينَ وَمَا أَدَّى الْعَبْدُ فَرَائِضَ الله حَتَّى عَقَلَ عَنْهُ وَلا بَلَغَ جَمِيعُ الْعَابِدِينَ فِي فَضْلِ عِبَادَتِهِمْ مَا بَلَغَ الْعَاقِلُ وَالْعُقَلاءُ هُمْ أُولُو الالْبَابِ الَّذِينَ قَالَ الله تَعَالَى وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلا أُولُو الالْبَابِ۔

راوی کہتا ہے کہ فرمایا حضرت رسول خدا ﷺ نے خدا نے اپنے بندوں پر عقل سے افضل کوئی چیز تقسیم نہیں کی ۔ عاقل کا سونا جاہل کے جاگنے سے بہتر ہے اور مقیم ہونا بہتر ہے جاہل کے سفرِ حج وغیرہ کرنے سے۔ خدا نے جس رسول کو بھیجا وہ ازروئے عقل کامل تھا۔ اس کی عقل افضل ہوتی ہے تمام عابدوں کی عقلوں سے زیادتی عبادات کی وجہ سے اور وہ اولوالالباب ہیں جن کا ذکر خدا نے قرآن میں کیا ہے۔ وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلا أُولُو الالْبَابِ۔

حدیث نمبر 12

أَبُو عَبْدِ الله الاشْعَرِيُّ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ قَالَ لِي أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ علیہ السلام يَا هِشَامُ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَشَّرَ أَهْلَ الْعَقْلِ وَالْفَهْمِ فِي كِتَابِهِ فَقَالَ فَبَشِّرْ عِبادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولئِكَ الَّذِينَ هَداهُمُ الله وَأُولئِكَ هُمْ أُولُوا الالْبابِ

ہشام بن الحکم سے مروی ہے کہ ابوالحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام نے مجھ سے بیان فرمایا کہ اے ہشام خدا اہلِ عقل و فہم کے لیے اپنی کتاب میں فرماتا ہے (اے محمدﷺ بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو کان لگا کر میرا کلام سنتے ہیں اور اچھی بات پر عمل کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے اور وہ عقلمند ہیں۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْمَلَ لِلنَّاسِ الْحُجَجَ بِالْعُقُولِ وَنَصَرَ النَّبِيِّينَ بِالْبَيَانِ وَدَلَّهُمْ عَلَى رُبُوبِيَّتِهِ بِالادِلَّةِ فَقَالَ وَإِلهُكُمْ إِلهٌ واحِدٌ لا إِلهَ إِلا هُوَ الرَّحْمنُ الرَّحِيمُ. إِنَّ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالارْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِما يَنْفَعُ النَّاسَ وَما أَنْزَلَ الله مِنَ السَّماءِ مِنْ ماءٍ فَأَحْيا بِهِ الارْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّياحِ وَالسَّحابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّماءِ وَالارْضِ لاياتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

اے ہشام خدا نے عقول کے ذریعے سے اپنی حجت کو انسانوں پر تمام کیا اور بیان سے انبیاء کی نصرت اور دلائل سے اپنی ربوبیت کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی اور فرمایا، بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت میں اور رات دن کے آنے جانے میں اور ان کشتیوں میں جو دریا میں چلتی ہیں اور لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں اور آسمان سے جو پانی نازل ہوتا ہے اور اس سے زمین زندہ کی جاتی ہے اور ہر قسم کے چوپائے جو اس پر چلتے پھرتے ہیں اور ہواؤں کا چلنا اور آسمان و زمین کے درمیان بادل کا مسخر ہونا یہ سب ان لوگوں کے لیے خدا کی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔

يَا هِشَامُ قَدْ جَعَلَ الله ذَلِكَ دَلِيلاً عَلَى مَعْرِفَتِهِ بِأَنَّ لَهُمْ مُدَبِّراً فَقَالَ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومُ مُسَخَّراتٌ بِأَمْرِهِ إِنَّ فِي ذلِكَ لاياتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَقَالَ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخاً وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلاً مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ وَقَالَ إِنَّ فِي اخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنْزَلَ الله مِنَ السَّمَاءِ مِنْ رِزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الارْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالارْضِ لآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَقَالَ يُحْيِ الارْضَ بَعْدَ مَوْتِها قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الاياتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ وَقَالَ وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوانٌ وَغَيْرُ صِنْوانٍ يُسْقى بِماءٍ واحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَها عَلى بَعْضٍ فِي الاكُلِ إِنَّ فِي ذلِكَ لاياتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَقَالَ وَمِنْ آياتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفاً وَطَمَعاً وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ ماءً فَيُحْيِي بِهِ الارْضَ بَعْدَ مَوْتِها إِنَّ فِي ذلِكَ لاياتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَقَالَ قُلْ تَعالَوْا أَتْلُ ما حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلا تَقْرَبُوا الْفَواحِشَ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ الله إِلا بِالْحَقِّ ذلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ وَقَالَ هَلْ لَكُمْ مِنْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ مِنْ شُرَكاءَ فِي ما رَزَقْناكُمْ فَأَنْتُمْ فِيهِ سَواءٌ تَخافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ كَذلِكَ نُفَصِّلُ الاياتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

اے ہشام خدا نے ان کو اپنی معرفت کی دلیل قرار دیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مدبر ہے ۔ وہ فرماتا ہے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کردیا اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں ان میں عقلمندوں کے لیے خدا کی معرفت کی نشانیاں ہیں یہ بھی فرماتا ہے کہ خدا وہ ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر نطفہ سے پھر علقہ سے ، پھر تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر تمہیں شباب کی منزل تک پہنچاتا ہے پھر تم بڈھے ہو جاتے ہو اور بعض اس سے پہلے مر جاتے ہیں تاکہ تم پہنچو مدت معین تک اور تا کہ تم سمجھو بوجھو خدا مرنے کے بعد زمین کو زندہ کرتا ہے ، ہم نے اپنی آیات تم سے بیان کر دیں تا کہ تم سمجھو۔ اور فرماتا ہے انگوروں کے باغ ہیں اور کھیتیاں ہیں اور خرمہ کے درخت ہیں ایک تنہ کے اور دو شاخوں کے جو ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور ہم نے ذائقہ میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے یہ نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو سمجھ والی ہیں اور فرمایا اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم کو بجلی دکھاتا ہے جو تمہارے لیے امید و بیم کا باعث ہوتی ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے جس میں زمین مرنے کے بعد زندہ ہو جاتی ہے اس میں آیات ہیں اس قوم کے لیے جو صاحبِ عقل ہے۔ اور فرماتا ہے آؤمیں تمہیں بتاؤں کہ خدا نے تم پر کیا حرام کیا ہے کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بناؤ ۔ والدین سے احسان کرو اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دینے والے ہیں اور ان کو بھی اور بدکاریوں کے قریب نہ جاؤ۔ ظاہر ہوں یا چھپی ہوئی اور بے خطا کسی کی جان نہ لو ۔ ہاں حق پر قتل کرو تو ٹھیک ہے۔ میری تم کو یہی ہدایت ہےتاکہ تم عقلمند بنو۔ اور فرمایا آیا تمہارے شریک ہیں تمہارے تمام غلام اور کنیزیں اس چیز میں جو ہم نے تم کو رزق دیا ہے تو کیا تم اس مال کے تصرف میں سب برابر ہو کہ تم ڈرتے ہو کیاتمہیں ان سے ایسا ہی خوف ہے جیسا تمہیں اپنے لوگوں کا حق و حصہ دینے میں خوف ہوتا ہے (پھر بندوں کو خدا کا شریک کیوں بناتے ہو) ہم عقلمندوں کے لیے اپنی آیات یونہی تفصیل سے بیان کرتے ہیں

يَا هِشَامُ ثُمَّ وَعَظَ أَهْلَ الْعَقْلِ وَرَغَّبَهُمْ فِي الاخِرَةِ فَقَالَ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الاخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَ فَلا تَعْقِلُونَ

امام علیہ السلام نے فرمایا ، اے ہشام خدا نے اپنی حجت پوری کرنے کے لیے عقلوں اور پیغمبروں کی ہدایت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد عقلوں کو نصیحت کی اور آخرت کی طرف رغبت دلائی ۔ اس طرح کہ فرمایا نہیں ہے زندگانی دنیا مگر لہو و لعب ، البتہ دار آخرت بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں اور عقل سے کام لیتے ہیں۔

يَا هِشَامُ ثُمَّ خَوَّفَ الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ عِقَابَهُ فَقَالَ تَعَالَى ثُمَّ دَمَّرْنَا الاخَرِينَ. وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَيْهِمْ مُصْبِحِينَ. وَبِاللَّيْلِ أَ فَلا تَعْقِلُونَ. وَقَالَ إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ بِما كانُوا يَفْسُقُونَ وَلَقَدْ تَرَكْنا مِنْها آيَةً بَيِّنَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

پھر پند کے بعد اس نے لوگوں کو ڈرایا جو سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے ۔ فرمایا ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا، اہل مکہ تم گزرتے ہو سفر میں اس طرف سے جہاں قوم لوط کو ہلاک کیا تھا۔ صبح و شام (یہ منظر دیکھتے ہو) تو کیا تم سمجھ سے کام نہ لو گے۔ ہم نازل کرنے والے ہیں اس گاؤں کے باشندوں پر آسمان سے عذاب ، کیونکہ وہ فاسق ہیں اور ہم نے اس عذاب سے روشن دلیلیں چھوڑی ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل والے ہیں۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الْعَقْلَ مَعَ الْعِلْمِ فَقَالَ وَتِلْكَ الامْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ وَما يَعْقِلُها إِلا الْعالِمُونَ

اے ہشام عقل علم کے ساتھ ہے جیسا کہ فرمایا یہ مثالیں ہم نے ان لوگوں کے لیے بیان کی ہیں جو ذی عقل ہیں کیونکہ ان کو نہیں سمجھتے مگر عقل والے۔

يَا هِشَامُ ثُمَّ ذَمَّ الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ فَقَالَ وَإِذا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا ما أَنْزَلَ الله قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا أَ وَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ وَقَالَ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلا دُعاءً وَنِداءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لا يَعْقِلُونَ. وَقَالَ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ أَ فَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كانُوا لا يَعْقِلُونَ وَقَالَ أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلا كَالانْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلاً وَقَالَ لا يُقاتِلُونَكُمْ جَمِيعاً إِلا فِي قُرىً مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَراءِ جُدُرٍ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعاً وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَعْقِلُونَ وَقَالَ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتابَ أَ فَلا تَعْقِلُونَ

اے ہشام پھر خدا نے مذمت کی ہے ان لوگوں کی جو عقل نہیں رکھتے فرماتا ہے جب ان سے کہا گیا جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو انھوں نے کہا کہ ہم تو پیروی کریں گے اس کی جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے اگرچہ ان کے آباء و اجداد نے کچھ بھی نہیں سمجھا اور نہ ہدایت پائی ۔ اور فرمایا کافروں کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جو ندا کرتے ہیں ان (بکریوں)کو جو آواز کے سوا کچھ نہیں سنتیں۔ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے اور فرماتا ہے بعض ایسے ہیں کہ اے رسول تمہاری بات سنتے ہیں مگر (راہ پر نہیں آتے) پس تو کیا تم بہروں کو سناتے ہو چاہے وہ عقل نہ رکھتے ہوں اور فرمایا تو کیا تم اے رسول یہ گمان کرتے ہو کہ اکثر لوگ جو تمہاری بات سنتے اور سمجھتے ہیں تو ایسا نہیں وہ چوپاؤں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔اے ہشام پھر فرماتا ہے یہودی تم سے جنگ نہیں کرتے مگر ایسے قریوں میں جو خندقوں سے محفوظ ہیں یا دیواروں کے پیچھے کیونکہ وہ اپنوں سے بھی بہت ڈرتے ہیں تم ان کو باہم دوست جانتے ہو حالانکہ ان کے اندر اختلاف ہے اور وہ عقل نہیں رکھتے اور فرمایا سورہ بقرہ میں تم اپنے نفسوں کو بھولے جاتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو کیا تم علم نہیں رکھتے۔

يَا هِشَامُ ثُمَّ ذَمَّ الله الْكَثْرَةَ فَقَالَ وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الارْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ الله وَقَالَ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّماواتِ وَالارْضَ لَيَقُولُنَّ الله قُلِ الْحَمْدُ لله بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْلَمُونَ وَقَالَ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحْيا بِهِ الارْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِها لَيَقُولُنَّ الله قُلِ الْحَمْدُ لله بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْقِلُونَ

اے ہشام خدا نے کثرت کی مذمت کی ہے فرماتا ہے اگر تم اس اکثریت کا اتباع کرو جو روئے زمین پر ہے تو وہ تم کو خدا کے راستہ سے گمراہ کر دے گی پھر فرماتا ہے اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں کواور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ کہیں گے اللہ نے، کہہ دو حمد ہے اللہ کے لیے اور اکثر ان میں سے نہیں جانتے اور خدا نے فرمایا اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے کس نے پانی برسایا جس سے مرنے کے بعد زمین کو زندہ کیا گیا تو وہ کہیں گے اللہ نے، کہو حمد ہے اللہ کے لیے لیکن ان کے اکثر نہیں سمجھتے ۔

يَا هِشَامُ ثُمَّ مَدَحَ الْقِلَّةَ فَقَالَ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبادِيَ الشَّكُورُ وَقَالَ وَقَلِيلٌ ما هُمْ وَقَالَ وَقالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ الله وَقَالَ وَمَنْ آمَنَ وَما آمَنَ مَعَهُ إِلا قَلِيلٌ وَقَالَ وَلكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لا يَعْلَمُونَ وَقَالَ وَأَكْثَرُهُمْ لا يَعْقِلُونَ وَقَالَ وَأَكْثَرُهُمْ لا يَشْعُرُونَ

حضرت نے فرمایا، اے ہشام خدا نے کثرت کی مذمت کے بعد قلت کی مدح فرمائی ہے، فرماتا ہے میرے شکرگزار بندے کم ہیں (سبا) اور ایمان و عمل صالح رکھنے والے کم ہیں (ص) ایک بندہ مومن جو آل فرعون سے تھا کہا گیا تم ایسے شخص کو قتل کرتےہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے (مومن) اور سورہ ہود میں ہے کہ نوح پر کم لوگ ایمان لائے لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے اور ان کے اکثر سمجھ نہیں رکھتے۔

يَا هِشَامُ ثُمَّ ذَكَرَ أُولِي الالْبَابِ بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ وَحَلاهُمْ بِأَحْسَنِ الْحِلْيَةِ فَقَالَ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَما يَذَّكَّرُ إِلا أُولُوا الالْبابِ وَقَالَ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَما يَذَّكَّرُ إِلا أُولُوا الالْبابِ وَقَالَ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالارْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهارِ لاياتٍ لاولِي الالْبابِ وَقَالَ أَ فَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمىإِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا الالْبابِ وَقَالَ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً يَحْذَرُ الاخِرَةَ وَيَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ إِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا الالْبابِ وَقَالَ كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آياتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الالْبابِ وَقَالَ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْهُدىوَأَوْرَثْنا بَنِي إِسْرائِيلَ الْكِتابَ هُدىً وَذِكْرىلاولِي الالْبابِ وَقَالَ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرىتَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

اے ہشام پھر خدا نے صاحبان عقل کا ذکر بہترین صورت میں کیا ہے اور بہترین زیور فضل و کمال سے ان کو آراستہ کیا ہے اور فرمایا ہے خدا جسے چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی اور نہیں ذکر کرتے مگر اولو الالباب اور پھر فرماتا ہے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے رات دن کے بار بار آنے جانے میں صاحبانِ عقل کے لئے نشانیاں ہیں جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ اے رسول تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ حق ہے وہ اس اندھے کی طرح نہیں جو کچھ نہیں جانتا، تذکرہ کرنے والے تو صاحبان عقل ہی ہیں جو رات کی تاریکی میں سجود و قیام کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنیوالا ہے اور وہ آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید کرتا ہے ، کہہ دو اے رسول جو لوگ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے کیا وہ برابر ہیں، بے شک صاحبان عقل ہی تذکرہ کرتے ہیں، اور فرمایا اے رسول جو کتاب ہم نے تم پر نازل کی ہے وہ مبارک ہے اور غرض نزول یہ ہے کہ لوگ اس کی آیات میں غور و تامل کریں اور تذکرہ کرتے ہیں اس کا صاحبان عقل ، ہم نے موسیٰ کو ہدایت بھری کتاب دی اور وارث بنایا، بنی اسرائیل کی اس کتاب کو جو ہدایت و نصیحت ہے عقلمندوں کے لیے ذکر کرو کیوں کہ ذکر کرنا مومنین کو نفع دیتا ہے۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الله تَعَالَى يَقُولُ فِي كِتَابِهِ إِنَّ فِي ذلِكَ لَذِكْرى لِمَنْ كانَ لَهُ قَلْبٌ يَعْنِي عَقْلٌ وَقَالَ وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ قَالَ الْفَهْمَ وَالْعَقْلَ

اے ہشام خدا اپنی کتاب میں فرماتا ہے نصیحت اس کے لیے سودمند ہے جو دل یعنی عقل رکھتا ہے ۔ ہم نے لقمان کو حکمت دی (امام نے فرمایا اس سے مراد عقل مندی اور ہوش مندی ہے )۔

يَا هِشَامُ إِنَّ لُقْمَانَ قَالَ لابْنِهِ تَوَاضَعْ لِلْحَقِّ تَكُنْ أَعْقَلَ النَّاسِ وَإِنَّ الْكَيِّسَ لَدَى الْحَقِّ يَسِيرٌ يَا بُنَيَّ إِنَّ الدُّنْيَا بَحْرٌ عَمِيقٌ قَدْ غَرِقَ فِيهَا عَالَمٌ كَثِيرٌ فَلْتَكُنْ سَفِينَتُكَ فِيهَا تَقْوَى الله وَحَشْوُهَا الايمَانَ وَشِرَاعُهَا التَّوَكُّلَ وَقَيِّمُهَا الْعَقْلَ وَدَلِيلُهَا الْعِلْمَ وَسُكَّانُهَا الصَّبْرَ

اے ہشام لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا احکام کتاب اللہ کے آگے فروتنی کر، تا کہ تو لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند ہو ، بے شک عقلمند لوگ خدائے حکیم کے نزدیک کم ہیں کیوں کہ اکثر لوگوں نے کتاب اللہ کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کر لی ہے اے فرزند دنیا ایک گہرے سمندر کی مانند ہے جس میں بہت سے لوگ ڈوب گئے پس چاہیے کہ تیری کشتی اس پُر شور دریا میں تقویٰ ہو اور متاع کشتی توجہ الی اللہ اور اس کا بادبان توکل علی اللہ ہو اور اس کی کارفرما عقل ہو اور ناخدا علم ہو اور پتوار صبر ہو۔

يَا هِشَامُ إِنَّ لِكُلِّ شَيْ ءٍ دَلِيلاً وَدَلِيلُ الْعَقْلِ التَّفَكُّرُ وَدَلِيلُ التَّفَكُّرِ الصَّمْتُ وَلِكُلِّ شَيْ ءٍ مَطِيَّةً وَمَطِيَّةُ الْعَقْلِ التَّوَاضُعُ وَكَفَى بِكَ جَهْلاً أَنْ تَرْكَبَ مَا نُهِيْتَ عَنْهُ

اے ہشام ہر شے کے لیے ایک دلیل ہوتی ہے اور دلیل عقل فکر ہے عواقب الامور میں اور رہنمائی فکر خموشی میں ہے ہر شے کا ایک مدار ہے اور عقل کا مدار فروتنی پر ہے کیونکہ تکبر کرنا اور شیخی مارنا عقلمندی کی راہ سے ہٹا دیتا ہے اور بے عقلی کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ جس چیز سے خدا نے منع کیا ہے تو اسے بجا لائے۔

يَا هِشَامُ مَا بَعَثَ الله أَنْبِيَاءَهُ وَرُسُلَهُ إِلَى عِبَادِهِ إِلا لِيَعْقِلُوا عَنِ الله فَأَحْسَنُهُمُ اسْتِجَابَةً أَحْسَنُهُمْ مَعْرِفَةً وَأَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ الله أَحْسَنُهُمْ عَقْلاً وَأَكْمَلُهُمْ عَقْلاً أَرْفَعُهُمْ دَرَجَةً فِي الدُّنْيَا وَالاخِرَةِ

اے ہشام خدا نے بندوں کی طرف اپنے انبیاء و مرسلین کو اس لیے بھیجا کہ وہ عقلمندی کے ساتھ اللہ سے یعنی قرآن سے علم حاصل کریں اور ازروئے استجابت و معرفت امر اللہ میں سب سے بہتر ہوں اور عقل میں کامل ہوں اور دنیا و آخرت میں ازروئے درجات بلند ہوں۔

يَا هِشَامُ إِنَّ لله عَلَى النَّاسِ حُجَّتَيْنِ حُجَّةً ظَاهِرَةً وَحُجَّةً بَاطِنَةً فَأَمَّا الظَّاهِرَةُ فَالرُّسُلُ وَالانْبِيَاءُ وَالائِمَّةُ (عَلَيْهم السَّلام) وَأَمَّا الْبَاطِنَةُ فَالْعُقُولُ

اے ہشام اللہ کی طرف سے لوگوں پر دو حجتیں ہیں، ایک ظاہری حجت اور ایک باطنی حجت ۔ ظاہری حجت انبیاء و رسول اور آئمہ ہیں اور باطنی حجت عقلیں ہیں۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الْعَاقِلَ الَّذِي لا يَشْغَلُ الْحَلالُ شُكْرَهُ وَلا يَغْلِبُ الْحَرَامُ صَبْرَهُ

اے ہشام عقلمند وہ ہے کہ حلال روزی کی کمی اس کے شکر کو کم نہیں کرتی اور حرام کی زیادتی اس کے صبر کو کم نہیں کرتی یعنی حرام چیزوں کی زیادتی دیکھ کر وہ ان میں تصرف کو روا نہیں رکھتا۔

يَا هِشَامُ مَنْ سَلَّطَ ثَلاثاً عَلَى ثَلاثٍ فَكَأَنَّمَا أَعَانَ عَلَى هَدْمِ عَقْلِهِ مَنْ أَظْلَمَ نُورُ تَفَكُّرِهِ بِطُولِ أَمَلِهِ وَمَحَا طَرَائِفَ حِكْمَتِهِ بِفُضُولِ كَلامِهِ وَأَطْفَأَ نُورَ عِبْرَتِهِ بِشَهَوَاتِ نَفْسِهِ فَكَأَنَّمَا أَعَانَ هَوَاهُ عَلَى هَدْمِ عَقْلِهِ وَمَنْ هَدَمَ عَقْلَهُ أَفْسَدَ عَلَيْهِ دِينَهُ وَدُنْيَاهُ

اے ہشام جس نے تین چیزوں کو تین پر مسلط کیا اس نے اپنی عقل کے خراب ہونے میں مدد کی اور جس نے طول عمل سے اپنی فکر کو تاریک کیا اس نے اپنے فضول کلام سے اپنی حکمت کے نوادر کو اپنے سے الگ کیا اور اپنے نور غیرت کو بجھا دیا۔ گویا اس نے عقل کی خرابی پر اپنی خواہشوں کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل کو خراب کیا اس نے اپنے دین و دنیا کو تباہ کیا۔

يَا هِشَامُ كَيْفَ يَزْكُو عِنْدَ الله عَمَلُكَ وَأَنْتَ قَدْ شَغَلْتَ قَلْبَكَ عَنْ أَمْرِ رَبِّكَ وَأَطَعْتَ هَوَاكَ عَلَى غَلَبَةِ عَقْلِكَ

اے ہشام کیوں کر پاک صاف رہے گا تیرا عمل ، درآنحالیکہ تو نے حکم رب سے دل کو ہٹا لیا ہے اور عقل کے تباہ کرنے میں خواہش نفس کی پیروی کی ہے۔

يَا هِشَامُ الصَّبْرُ عَلَى الْوَحْدَةِ عَلامَةُ قُوَّةِ الْعَقْلِ فَمَنْ عَقَلَ عَنِ الله اعْتَزَلَ أَهْلَ الدُّنْيَا وَالرَّاغِبِينَ فِيهَا وَرَغِبَ فِيمَا عِنْدَ الله وَكَانَ الله أُنْسَهُ فِي الْوَحْشَةِ وَصَاحِبَهُ فِي الْوَحْدَةِ وَغِنَاهُ فِي الْعَيْلَةِ وَمُعِزَّهُ مِنْ غَيْرِ عَشِيرَةٍ

اے ہشام تنہائی پر صبر کرنا قوت عقل کی علامت ہے جس نے (کتاب) خدا سے علم حاصل کیا تو وہ اہل دنیا اور اس کی طرف رغبت کرنے والوں سے الگ ہو گیا اور خدا کی طرف رجوع کی پس خدا وحشت میں اس کا انیس اور وحدت میں اس کا ساتھی اور مفلسی میں اس کی تونگری اور غیر قبیلہ اس کے لیے عزت ہوا۔

يَا هِشَامُ نَصْبُ الْحَقِّ لِطَاعَةِ الله وَلا نَجَاةَ إِلا بِالطَّاعَةِ وَالطَّاعَةُ بِالْعِلْمِ وَالْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ وَالتَّعَلُّمُ بِالْعَقْلِ يُعْتَقَدُ وَلا عِلْمَ إِلا مِنْ عَالِمٍ رَبَّانِيٍّ وَمَعْرِفَةُ الْعِلْمِ بِالْعَقْلِ

اے ہشام حق طاعت خدا میں ہے اور نہیں ہے نجات مگر اطاعتِ خدا میں اور اطاعت ہوتی ہے علم سے اور علم ہوتا ہے حاصل کرنے سے اور حاصل کیا جاتا ہے عقل سے اور نہیں علم لینا چاہیے مگر عالم ربانی سے اور معرفتِ علم کا تعلق عقل سے ہے۔

يَا هِشَامُ قَلِيلُ الْعَمَلِ مِنَ الْعَالِمِ مَقْبُولٌ مُضَاعَفٌ وَكَثِيرُ الْعَمَلِ مِنْ أَهْلِ الْهَوَى وَالْجَهْلِ مَرْدُودٌ يَا هِشَامُ إِنَّ الْعَاقِلَ رَضِيَ بِالدُّونِ مِنَ الدُّنْيَا مَعَ الْحِكْمَةِ وَلَمْ يَرْضَ بِالدُّونِ مِنَ الْحِكْمَةِ مَعَ الدُّنْيَا فَلِذَلِكَ رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ

اے ہشام عالم کا قلیل عمل مقبول اور دوچند ہے اور اہل ہوا و جہل کا کثیر عمل بھی مردود ہے۔ اے ہشام عقل مند آدمی حکمت و دانائی پا کر کم سے کم متاعِ دنیا پر راضی ہو جاتا ہے اور نہیں راضی ہوتا کم خردمندی پر جو زیادتی سامان دنیا کے ساتھ ہو۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الْعُقَلاءَ تَرَكُوا فُضُولَ الدُّنْيَا فَكَيْفَ الذُّنُوبَ وَتَرْكُ الدُّنْيَا مِنَ الْفَضْلِ وَتَرْكُ الذُّنُوبِ مِنَ الْفَرْضِ

اے ہشام دنیا کے سامان کی زیادتی کو عقل مند لوگوں نے ترک کیا پس صدور گناہ ان سے کیوں ہو ، ترک دنیا فضیلت ہے اور ترک گناہ فرض۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الْعُقَلاءَ زَهِدُوا فِي الدُّنْيَا وَرَغِبُوا فِي الاخِرَةِ لانَّهُمْ عَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا طَالِبَةٌ مَطْلُوبَةٌ وَالاخِرَةَ طَالِبَةٌ وَمَطْلُوبَةٌ فَمَنْ طَلَبَ الاخِرَةَ طَلَبَتْهُ الدُّنْيَا حَتَّى يَسْتَوْفِيَ مِنْهَا رِزْقَهُ وَمَنْ طَلَبَ الدُّنْيَا طَلَبَتْهُ الاخِرَةُ فَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ فَيُفْسِدُ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ وَآخِرَتَهُ

اے ہشام عقل مندوں نے زہد فی دنیا اختیار کیا اور آخرت کی طرف رغبت کی کیونکہ انھوں نے یہ جان لیا کہ دنیا طالبہ اور مطلوبہ ہے اور آخرت بھی طالبہ اور مطلوبہ ہے پس جس نے آخرت کو طلب کیا دنیا اس کی طالب بنی یہاں تک کہ اس کا رزق دنیا سے پورا ہوا اور جس نے دنیا کو طلب کیا آخرت نے اس کو طلب کیا جب اس کو موت آئی تو اس کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوئیں۔

يَا هِشَامُ مَنْ أَرَادَ الْغِنَى بِلا مَالٍ وَرَاحَةَ الْقَلْبِ مِنَ الْحَسَدِ وَالسَّلامَةَ فِي الدِّينِ فَلْيَتَضَرَّعْ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ فِي مَسْأَلَتِهِ بِأَنْ يُكَمِّلَ عَقْلَهُ فَمَنْ عَقَلَ قَنِعَ بِمَا يَكْفِيهِ وَمَنْ قَنِعَ بِمَا يَكْفِيهِ اسْتَغْنَى وَمَنْ لَمْ يَقْنَعْ بِمَا يَكْفِيهِ لَمْ يُدْرِكِ الْغِنَى أَبَداً

اے ہشام جو چاہتا ہے کہ آرزوؤں سے چھٹکارا ملے اور حسد سے دل دور رہے اور امرِ دین میں سلامتی حاصل ہو اسے چاہیے کہ اللہ کی طرف رجوع کر کے یہ سوال کرے کہ وہ اس کی عقل کو کامل بنا دے۔ جس کی عقل کامل ہوئی اس نے قناعت کی بقدر کفایت چیز پر اور جس نے قناعت کی اس پر وہ مستغنی ہو گیا اور جس نے بقدر ضرورت اکتفا نہ کی اس نے استغنا کو کبھی نہ پایا۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الله حَكَى عَنْ قَوْمٍ صَالِحِينَ أَنَّهُمْ قَالُوا رَبَّنا لا تُزِغْ قُلُوبَنا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنا وَهَبْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ حِينَ عَلِمُوا أَنَّ الْقُلُوبَ تَزِيغُ وَتَعُودُ إِلَى عَمَاهَا وَرَدَاهَا إِنَّهُ لَمْ يَخَفِ الله مَنْ لَمْ يَعْقِلْ عَنِ الله وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ عَنِ الله لَمْ يَعْقِدْ قَلْبَهُ عَلَى مَعْرِفَةٍ ثَابِتَةٍ يُبْصِرُهَا وَيَجِدُ حَقِيقَتَهَا فِي قَلْبِهِ وَلا يَكُونُ أَحَدٌ كَذَلِكَ إِلا مَنْ كَانَ قَوْلُهُ لِفِعْلِهِ مُصَدِّقاً وَسِرُّهُ لِعَلانِيَتِهِ مُوَافِقاً لانَّ الله تَبَارَكَ اسْمُهُ لَمْ يَدُلَّ عَلَى الْبَاطِنِ الْخَفِيِّ مِنَ الْعَقْلِ إِلا بِظَاهِرٍ مِنْهُ وَنَاطِقٍ عَنْهُ

اے ہشام خدا نے حکایت کی ہے نیک لوگوں کی بایں طور کہ انھوں نے کہا کہ اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو کج نہ کر اس کے بعد کہ تو نے ہم کو ہدایت کی اے معبود ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے۔ جب انھوں نےیہ جان لیا کہ قلوب کج ہوتےہیں اور بے بصری اور ہلاکت کی طرف لوٹتے ہیں تو یہ سمجھ لیا کہ جس نے اللہ سے عقل حاصل نہیں کی یعنی کتاب خدا سے علم حاصل نہیں کیا وہ اللہ سےنہیں ڈرتا جس نے خردمندی کو کتاب خدا سے حاصل نہ کیا اور اپنے دل میں معرفتِ پائندہ کو جگہ نہ دی جس سے مدد حاصل کرتا اور حقیقت کو پا لیتا، یہ تو وہی کریگا جس کا قول اس کے فعل کی تصدیق کرتا ہو اور ظاہر و باطن کے مطابق ہو کیونکہ خدا نے لوگوں کی رہنمائی نہیں کی باطن خفی پر جس سے مراد عقل ہے مگر محکمات قرآن سے یعنی رسول سخن صریح سے ہدایت فرماتے تھے اور منع کرتے تھے اختلاف اور پیروی ظن سے۔

يَا هِشَامُ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَقُولُ مَا عُبِدَ الله بِشَيْ ءٍ أَفْضَلَ مِنَ الْعَقْلِ وَمَا تَمَّ عَقْلُ امْرِئٍ حَتَّى يَكُونَ فِيهِ خِصَالٌ شَتَّى الْكُفْرُ وَالشَّرُّ مِنْهُ مَأْمُونَانِ وَالرُّشْدُ وَالْخَيْرُ مِنْهُ مَأْمُولانِ وَفَضْلُ مَالِهِ مَبْذُولٌ وَفَضْلُ قَوْلِهِ مَكْفُوفٌ وَنَصِيبُهُ مِنَ الدُّنْيَا الْقُوتُ لا يَشْبَعُ مِنَ الْعِلْمِ دَهْرَهُ الذُّلُّ أَحَبُّ إِلَيْهِ مَعَ الله مِنَ الْعِزِّ مَعَ غَيْرِهِ وَالتَّوَاضُعُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الشَّرَفِ يَسْتَكْثِرُ قَلِيلَ الْمَعْرُوفِ مِنْ غَيْرِهِ وَيَسْتَقِلُّ كَثِيرَ الْمَعْرُوفِ مِنْ نَفْسِهِ وَيَرَى النَّاسَ كُلَّهُمْ خَيْراً مِنْهُ وَأَنَّهُ شَرُّهُمْ فِي نَفْسِهِ وَهُوَ تَمَامُ الامْرِ

اے ہشام امیر المومنین فرمایا کرتے تھے کہ عقل سے بہتر عبادت خدا کی کسی نے نہیں کی، آدمی کی عقل کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں چند خصلتیں نہ ہوں۔ اس کو کفر و شر سے امن ہو، اس سے نیکی اور خیر کی امید ہو، ضرورت سے زیادہ مال راہ خدا میں خرچ کرے، دنیا سے اس کا حصہ قوت لا یموت ہو، علم کی تحصیل سے سیر نہ ہو، راہ خدا میں ذلت اس کے نزدیک زیادہ محبوب ہو اس عزت سے جو غیر کو ملے ، غیر کا تھوڑا احسان زیادہ جانے اور اپنا احسان دوسرے کے ساتھ کم سمجھے سب کو اپنے سے بہتر اور اپنے کو ان سے بدتر جانے۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الْعَاقِلَ لا يَكْذِبُ وَإِنْ كَانَ فِيهِ هَوَاهُ

عقل مند چھوٹ نہیں بولتا ، ہر چندخواہش طبع ہو۔

يَا هِشَامُ لا دِينَ لِمَنْ لا مُرُوَّةَ لَهُ وَلا مُرُوَّةَ لِمَنْ لا عَقْلَ لَهُ وَإِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ قَدْراً الَّذِي لا يَرَى الدُّنْيَا لِنَفْسِهِ خَطَراً أَمَا إِنَّ أَبْدَانَكُمْ لَيْسَ لَهَا ثَمَنٌ إِلا الْجَنَّةُ فَلا تَبِيعُوهَا بِغَيْرِهَا

اے ہشام جس کے لیے مروت نہیں اس کے لیے دین نہیں، اور مروت اسی کے لیے نہیں جس کے پاس عقل نہیں ازروئے قدر و منزلت سب سے بڑا آدمی وہ ہے جو اپنے لیے دنیا کو کوئی بڑی چیز نہیں سمجھتا ، آگاہ رہو کہ تمہارے ابدان کی قیمت جنت کے سوا کچھ نہیں، پس ان کو جنت کے سوا کسی کے بدلہ میں نہ بیچو۔

يَا هِشَامُ إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ كَانَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ عَلامَةِ الْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ فِيهِ ثَلاثُ خِصَالٍ يُجِيبُ إِذَا سُئِلَ وَيَنْطِقُ إِذَا عَجَزَ الْقَوْمُ عَنِ الْكَلامِ وَيُشِيرُ بِالرَّأْيِ الَّذِي يَكُونُ فِيهِ صَلاحُ أَهْلِهِ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الْخِصَالِ الثَّلاثِ شَيْ ءٌ فَهُوَ أَحْمَقُ إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ لا يَجْلِسُ فِي صَدْرِ الْمَجْلِسِ إِلا رَجُلٌ فِيهِ هَذِهِ الْخِصَالُ الثَّلاثُ أَوْ وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ شَيْ ءٌ مِنْهُنَّ فَجَلَسَ فَهُوَ أَحْمَقُ

اے ہشام امیر المومنین علیہ السلام فرماتے تھے عقل مند کی علامت یہ ہے کہ اس میں تین خصلتیں ہوں، جب سوال کیا جائے تو جواب دے اور جب قوم عاجز ہو تو بولے اور مشورہ دے ایسی رائے جس سےاس کی اہل کی اصلاح ہو جس میں یہ تین خصلتیں نہ ہوں یا ان میں سے ایک بھی نہ ہو وہ احمق ہے ، امیر المومنین نے فرمایا مجلس کے صدر میں نہ بیٹھے، مگر وہ شخص جس میں یہ تین خصلتیں ہوں یا کم سے کم ان میں سے ایک ہو اور جس میں ایک بھی نہ ہو وہ احمق ہے۔

وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ (عَلَيْهما السَّلام) إِذَا طَلَبْتُمُ الْحَوَائِجَ فَاطْلُبُوهَا مِنْ أَهْلِهَا قِيلَ. يَا ابْنَ رَسُولِ الله وَمَنْ أَهْلُهَا قَالَ الَّذِينَ قَصَّ الله فِي كِتَابِهِ وَذَكَرَهُمْ فَقَالَ إِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا الالْبابِ قَالَ هُمْ أُولُو الْعُقُولِ وَقَالَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) مُجَالَسَةُ الصَّالِحِينَ دَاعِيَةٌ إِلَى الصَّلاحِ وَآدَابُ الْعُلَمَاءِ زِيَادَةٌ فِي الْعَقْلِ وَطَاعَةُ وُلاةِ الْعَدْلِ تَمَامُ الْعِزِّ وَاسْتِثْمَارُ الْمَالِ تَمَامُ الْمُرُوءَةِ وَإِرْشَادُ الْمُسْتَشِيرِ قَضَاءٌ لِحَقِّ النِّعْمَةِ وَكَفُّ الاذَى مِنْ كَمَالِ الْعَقْلِ وَفِيهِ رَاحَةُ الْبَدَنِ عَاجِلاً وَآجِلاً

امام حسن علیہ السلام نے فرمایا جب تم حاجتوں کو طلب کرو تو اس کے اہل سے طلب کرو، کسی نے کہا یابن رسول اللہ اہل کون ہیں ، فرمایا وہ لوگ ہیں جن کا ذکر خدا نے کیا ہے کہ اولوالالباب نصیحت حاصل کرتے ہیں اور حضرت نے فرمایا وہ صاحبانِ عقل ہیں۔ حضرت امام زین العابدین ؑ نے فرمایا کہ نیکوں کی صحبت میں بیٹھنا اصلاح و دوستی کا سبب ہوتا ہے اور آدابِ علماء باعثِ زیادتیِ عقل ہے اور عاقل حکمرانوں کی اطاعت سبب عزت ہے اور اپنے مال کو نفقہ اہل و عیال میں خرچ کرنا مروت ہے اور طالب مشورہ کو راہِ نیک دکھانا حق نعمت ہے اور ایذا رسانی سے باز رہنا کمالِ عقل اور راحتِ بدن ہے جلد یا بدیر۔

يَا هِشَامُ إِنَّ الْعَاقِلَ لا يُحَدِّثُ مَنْ يَخَافُ تَكْذِيبَهُ وَلا يَسْأَلُ مَنْ يَخَافُ مَنْعَهُ وَلا يَعِدُ مَا لا يَقْدِرُ عَلَيْهِ وَلا يَرْجُو مَا يُعَنَّفُ بِرَجَائِهِ وَلا يُقْدِمُ عَلَى مَا يَخَافُ فَوْتَهُ بِالْعَجْزِ عَنْهُ۔

اے ہشام عقل مند بات نہیں کرتا اس سے جس کے جھٹلانے سے ڈرتا ہے اور نہیں سوال کرتا اس سے جس کے منع کرنے سے ڈرتا ہے اور جس پر قابو نہ ہو اس کا وعدہ نہیں کرتا اور نہیں امید کرتا اس چیز کی جس کی امید باعثِ سرزنش ہو اور نہیں قدم اٹھاتا ایسی چیز کی طرف کہ خبر کی بناء پر اس کے فوت ہونے کا خوف ہو۔

حدیث نمبر 13

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام الْعَقْلُ غِطَاءٌ سَتِيرٌ وَالْفَضْلُ جَمَالٌ ظَاهِرٌ فَاسْتُرْ خَلَلَ خُلُقِكَ بِفَضْلِكَ وَقَاتِلْ هَوَاكَ بِعَقْلِكَ تَسْلَمْ لَكَ الْمَوَدَّةُ وَتَظْهَرْ لَكَ الْمَحَبَّةُ۔

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا عقل ایک پردہ میں پنہاں ہے اور بخشش مال بہ خوبی نمایاں ہے پس اپنے خلق کی خرابی کو بخشش سے چھپا لے اور اپنی بدخواہشوں کو اپنی عقل سے قتل کر تیرے لئے باطنی محبت قائم رہیگی اور لوگوں کی ظاہر دوستی نمایاں ہو گی۔

حدیث نمبر 14

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَدِيدٍ عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله وَعِنْدَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ مَوَالِيهِ فَجَرَى ذِكْرُ الْعَقْلِ وَالْجَهْلِ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله اعْرِفُوا الْعَقْلَ وَجُنْدَهُ وَالْجَهْلَ وَجُنْدَهُ تَهْتَدُوا قَالَ سَمَاعَةُ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ لا نَعْرِفُ إِلا مَا عَرَّفْتَنَا فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ الْعَقْلَ وَهُوَ أَوَّلُ خَلْقٍ مِنَ الرُّوحَانِيِّينَ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ مِنْ نُورِهِ فَقَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ فَقَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقْتُكَ خَلْقاً عَظِيماً وَكَرَّمْتُكَ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِي قَالَ ثُمَّ خَلَقَ الْجَهْلَ مِنَ الْبَحْرِ الاجَاجِ ظُلْمَانِيّاً فَقَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَلَمْ يُقْبِلْ فَقَالَ لَهُ اسْتَكْبَرْتَ فَلَعَنَهُ ثُمَّ جَعَلَ لِلْعَقْلِ خَمْسَةً وَسَبْعِينَ جُنْداً فَلَمَّا رَأَى الْجَهْلُ مَا أَكْرَمَ الله بِهِ الْعَقْلَ وَمَا أَعْطَاهُ أَضْمَرَ لَهُ الْعَدَاوَةَ فَقَالَ الْجَهْلُ يَا رَبِّ هَذَا خَلْقٌ مِثْلِي خَلَقْتَهُ وَكَرَّمْتَهُ وَقَوَّيْتَهُ وَأَنَا ضِدُّهُ وَلا قُوَّةَ لِي بِهِ فَأَعْطِنِي مِنَ الْجُنْدِ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَهُ فَقَالَ نَعَمْ فَإِنْ عَصَيْتَ بَعْدَ ذَلِكَ أَخْرَجْتُكَ وَجُنْدَكَ مِنْ رَحْمَتِي قَالَ قَدْ رَضِيتُ فَأَعْطَاهُ خَمْسَةً وَسَبْعِينَ جُنْداً فَكَانَ مِمَّا أَعْطَى الْعَقْلَ مِنَ الْخَمْسَةِ وَالسَّبْعِينَ
الْجُنْدَ الْخَيْرُ وَهُوَ وَزِيرُ الْعَقْلِ وَجَعَلَ ضِدَّهُ الشَّرَّ وَهُوَ وَزِيرُ الْجَهْلِ وَالايمَانُ وَضِدَّهُ الْكُفْرَ وَالتَّصْدِيقُ وَضِدَّهُ الْجُحُودَ وَالرَّجَاءُ وَضِدَّهُ الْقُنُوطَ وَالْعَدْلُ وَضِدَّهُ الْجَوْرَ وَالرِّضَا وَضِدَّهُ السُّخْطَ وَالشُّكْرُ وَضِدَّهُ الْكُفْرَانَ وَالطَّمَعُ وَضِدَّهُ الْيَأْسَ وَالتَّوَكُّلُ وَضِدَّهُ الْحِرْصَ وَالرَّأْفَةُ وَضِدَّهَا الْقَسْوَةَ وَالرَّحْمَةُ وَضِدَّهَا الْغَضَبَ وَالْعِلْمُ وَضِدَّهُ الْجَهْلَ وَالْفَهْمُ وَضِدَّهُ الْحُمْقَ وَالْعِفَّةُ وَضِدَّهَا التَّهَتُّكَ وَالزُّهْدُ وَضِدَّهُ الرَّغْبَةَ وَالرِّفْقُ وَضِدَّهُ الْخُرْقَ وَالرَّهْبَةُ وَضِدَّهُ الْجُرْأَةَ وَالتَّوَاضُعُ وَضِدَّهُ الْكِبْرَ وَالتُّؤَدَةُ وَضِدَّهَا التَّسَرُّعَ وَالْحِلْمُ وَضِدَّهَا السَّفَهَ وَالصَّمْتُ وَضِدَّهُ الْهَذَرَ وَالاسْتِسْلامُ وَضِدَّهُ الاسْتِكْبَارَ وَالتَّسْلِيمُ وَضِدَّهُ الشَّكَّ وَالصَّبْرُ وَضِدَّهُ الْجَزَعَ وَالصَّفْحُ وَضِدَّهُ الانْتِقَامَ وَالْغِنَى وَضِدَّهُ الْفَقْرَ وَالتَّذَكُّرُ وَضِدَّهُ السَّهْوَ وَالْحِفْظُ وَضِدَّهُ النِّسْيَانَ وَالتَّعَطُّفُ وَضِدَّهُ الْقَطِيعَةَ وَالْقُنُوعُ وَضِدَّهُ الْحِرْصَ وَالْمُؤَاسَاةُ وَضِدَّهَا الْمَنْعَ وَالْمَوَدَّةُ وَضِدَّهَا الْعَدَاوَةَ وَالْوَفَاءُ وَضِدَّهُ الْغَدْرَ وَالطَّاعَةُ وَضِدَّهَا الْمَعْصِيَةَ وَالْخُضُوعُ وَضِدَّهُ التَّطَاوُلَ وَالسَّلامَةُ وَضِدَّهَا الْبَلاءَ وَالْحُبُّ وَضِدَّهُ الْبُغْضَ وَالصِّدْقُ وَضِدَّهُ الْكَذِبَ وَالْحَقُّ وَضِدَّهُ الْبَاطِلَ وَالامَانَةُ وَضِدَّهَا الْخِيَانَةَ وَالاخْلاصُ وَضِدَّهُ الشَّوْبَ وَالشَّهَامَةُ وَضِدَّهَا الْبَلادَةَ وَالْفَهْمُ وَضِدَّهُ الْغَبَاوَةَ وَالْمَعْرِفَةُ وَضِدَّهَا الانْكَارَ وَالْمُدَارَاةُ وَضِدَّهَا الْمُكَاشَفَةَ وَسَلامَةُ الْغَيْبِ وَضِدَّهَا الْمُمَاكَرَةَ وَالْكِتْمَانُ وَضِدَّهُ الافْشَاءَ وَالصَّلاةُ وَضِدَّهَا الاضَاعَةَ وَالصَّوْمُ وَضِدَّهُ الافْطَارَ وَالْجِهَادُ وَضِدَّهُ النُّكُولَ وَالْحَجُّ وَضِدَّهُ نَبْذَ الْمِيثَاقِ وَصَوْنُ الْحَدِيثِ وَضِدَّهُ النَّمِيمَةَ وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَضِدَّهُ الْعُقُوقَ وَالْحَقِيقَةُ وَضِدَّهَا الرِّيَاءَ وَالْمَعْرُوفُ وَضِدَّهُ الْمُنْكَرَ وَالسَّتْرُ وَضِدَّهُ التَّبَرُّجَ وَالتَّقِيَّةُ وَضِدَّهَا الاذَاعَةَ وَالانْصَافُ وَضِدَّهُ الْحَمِيَّةَ وَالتَّهْيِئَةُ وَضِدَّهَا الْبَغْيَ وَالنَّظَافَةُ وَضِدَّهَا الْقَذَرَ وَالْحَيَاءُ وَضِدَّهَا الْجَلَعَ وَالْقَصْدُ وَضِدَّهُ الْعُدْوَانَ وَالرَّاحَةُ وَضِدَّهَا التَّعَبَ وَالسُّهُولَةُ وَضِدَّهَا الصُّعُوبَةَ وَالْبَرَكَةُ وَضِدَّهَا الْمَحْقَ وَالْعَافِيَةُ وَضِدَّهَا الْبَلاءَ وَالْقَوَامُ وَضِدَّهُ الْمُكَاثَرَةَ وَالْحِكْمَةُ وَضِدَّهَا الْهَوَاءَ وَالْوَقَارُ وَضِدَّهُ الْخِفَّةَ وَالسَّعَادَةُ وَضِدَّهَا الشَّقَاوَةَ وَالتَّوْبَةُ وَضِدَّهَا الاصْرَارَ وَالاسْتِغْفَارُ وَضِدَّهُ الاغْتِرَارَ وَالْمُحَافَظَةُ وَضِدَّهَا التَّهَاوُنَ وَالدُّعَاءُ وَضِدَّهُ الاسْتِنْكَافَ وَالنَّشَاطُ وَضِدَّهُ الْكَسَلَ وَالْفَرَحُ وَضِدَّهُ الْحَزَنَ وَالالْفَةُ وَضِدَّهَا الْفُرْقَةَ وَالسَّخَاءُ وَضِدَّهُ الْبُخْلَ
فَلا تَجْتَمِعُ هَذِهِ الْخِصَالُ كُلُّهَا مِنْ أَجْنَادِ الْعَقْلِ إِلا فِي نَبِيٍّ أَوْ وَصِيِّ نَبِيٍّ أَوْ مُؤْمِنٍ قَدِ امْتَحَنَ الله قَلْبَهُ لِلايمَانِ وَأَمَّا سَائِرُ ذَلِكَ مِنْ مَوَالِينَا فَإِنَّ أَحَدَهُمْ لا يَخْلُو مِنْ أَنْ يَكُونَ فِيهِ بَعْضُ هَذِهِ الْجُنُودِ حَتَّى يَسْتَكْمِلَ وَيَنْقَى مِنْ جُنُودِ الْجَهْلِ فَعِنْدَ ذَلِكَ يَكُونُ فِي الدَّرَجَةِ الْعُلْيَا مَعَ الانْبِيَاءِ وَالاوْصِيَاءِ وَإِنَّمَا يُدْرَكُ ذَلِكَ بِمَعْرِفَةِ الْعَقْلِ وَجُنُودِهِ وَبِمُجَانَبَةِ الْجَهْلِ وَجُنُودِهِ وَفَّقَنَا الله وَإِيَّاكُمْ لِطَاعَتِهِ وَمَرْضَاتِهِ۔

سماعہ سے مروی ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کی خدمت میں آپ کے دوستوں کی ایک جماعت موجود تھی اور عقل و جہل کا ذکر ہو رہا تھا۔ حضرت نے فرمایا، عقل اور اس کے لشکر کو اور جہل اور اس کے لشکر کو پہچانو ہدایت پا جاؤ گے، سماعہ نے کہا میری جان آپ پر فدا ہو ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے بتایا ہے، حضرت نے فرمایا خدائے عزوجل نے عقل کو پیدا کیا اور وہ روحانیین میں سب سے پہلی مخلوق ہے جس کو اپنے نور سے یمینِ عرش سے پیدا کیا اس سے کہا ، پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹ گئی، پھر کہا آگے آ، وہ آگے آئی، خدا نے فرمایا میں نے تجھ کو خلقتِ عظیم کے ساتھ پیدا کیا اور اپنی تمام مخلوق پر فضیلت دی، پھر جہل کو پیدا کیا ، کھاری دریا سے جو ظلماتی تھا اس سے کہا پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹ گیا پھر کہا آگے آ ، وہ آگے نہ آیا، خدا نے کہا تو نے تکبر کیا اور اس پر لعن کی، پھر خدا نے عقل کے لیے پچھتر خوبیوں کا لشکر عطا کیا۔ جب جہل نے عقل کا یہ عزت و اکرام دیکھا تو عقل کی عداوت اس کے دل میں سما گئی ۔ جہل نے کہا اے معبود تو نے میری طرح عقل کو بھی پیدا کیا تو نے اسکو صاحبِ کرامت و قوت بنا دیا۔ میں اس کی ضد ہوں میرے لئے کوئی قوت نہیں، پس جیسا لشکر اسے دیا ہے اپنی رحمت سے مجھے بھی دے، خدا نے فرمایا ، اچھا اگر تو نے اس لشکر کی نافرمانی کی تو میں تجھے اورتیرے لشکر کو اپنی رحمت سے دور کر دوں گا۔ اس نے کہا میں راضی ہوں پس خدا نے اسے بھی پچھتر فوجی دیئے۔
پس عقل کی فوج جن پچھتر سے بنائی گئی وہ یہ ہیں:۔
خیر جو وزیر عقل اس کی ضد شر ہے جو وزیر جہل ہے ، ایمان جس کی ضد کفر ہے، تصدیق جسکی ضد انکار ہے، امید جس کی ضد مایوسی ہے، عدل جس کی ضد ظلم ہے، رضا جس کی ضد غصہ ہے ، شکر جس کی ضد کفران ہے، طمع جس کی ضد یاس ہے ، توکل جس کی ضد حرص ہے، مہربانی یا نرم دلی جس کی ضد سخت دلی ہے، رحمت جس کی ضد غضب ہے ، علم جس کی ضد جہل ہے، فہم جس کی ضد حماقت ہے، تفقہ جس کی ضد تہتک ہے، زہد جس کی ضد رغبت ہے، خوش خوئی جس کی ضد بدخوئی ہے، ڈرنا جس کی ضد جراٗت ہے یعنی بدی سے ڈرنا جس کی ضد بے باکی ہے ، فروتنی جس کی ضد دعوی بزرگی ہے اور فکر و سخن میں آہستگی اس کی ضد جلد بازی ہے، علم کی ضد دشنام دہی ہے اور خاموشی کی ضدہرزہ گوئی ہے اور قبولیت کی ضد سرکشی ہے تسلیم کی شک صبر کی ضد بے قراری ہے، درگذر کی ضد انتقام ہے، استغنا کی ضد فقر ہے، تذکر کی ضد سہو ہے ، حفظ کی ضد نسیان، مہربانی کی ضد قطع تعلق اور قناعت کی ضد حرص ہے، محتاجوں سے ہمدردی کی ضد ہمدردی کو روک دینا ہے اور محبت کی ضد عداوت ہے اور وفا کی ضد غدر اور طاقت کی ضد معصیت ہے اور گریہ و زاری کی ضد سرکشی اور سلامتی کی ضد بلا اور محبت کی ضد بُغض ہے اور سچ کی ضد جھوٹ اور حق کی ضد باطل اور امانت کی ضد خیانت ہے اور بے غرض کہنے کی ضد غرض آلود بات کرنا ہے اور چیزوں کا جلد تصور کرنا اور اس کی ضد کو دن بننا ہے ، فہم کی ضد غبی ہونا ہے اور معرفت کی ضد انکار ہے اور کسی کی بدی سے چشم پوشی کی ضد اس کا ظاہر کرنا ہے، حاضر و غائب مین کسی ایک روش پر رہنا اس کی ضد دوزخی ہونا، اور اپنے راز کو چھپانا اس کی ضد ہے ظاہر کرنا اور نماز کو ادا کرنا اس کی ضد غفلت سے پیروی آئمہ کو ضائع کرنا ہے اور روزہ رکھنا اس کی ضد ہے شکم پرستی ، جنگ کرنا دشمن دین سے اس کی ضد حق سے روگردانی اور حج کی ضد ہے پیمان الہٰی کو پس پشت ڈالنا اور لوگوں کی باتوں پر نگاہ رکھنا اس کی ضد ہے چغل خوری اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا اس کی ضد ہے ان کی نافرمانی اور حقیقت کی ضد ہے ریااور معروف کی ضد منکر ہے اور ستر کی ضد اظہار خوبی اور تقیہ کی ضد اظہار حق بے باکی سے کرنا اور انصاف کی ضد لوگوں کے درمیان تفاوت قائم کرنا بے وجہ اور دشمن سے رضا جوئی جس میں دونوں کے لیے بہتری ہو اس کی ضد زیادہ روی ہے اور پاکیزگی ضد چرک ہے شرم کی ضد بے شرمی اور میانہ روی کی ضد حد سے گزرنا ہے، راحت کی ضد تعب اور سہولت کی ضد صعوبت اور برکت کی ضد نحوست اور عافیت کی ضد بلا اور القوام کی ضد مکاثرہ ، قد حکمت خواہش ہائے بد اور وقار کی ضد سبکی اور سعادت کی ضد شقاوت ، توبہ کی ضد اضرار ہے استغفار کی ضد افترار باوجود گناہ نعمت ہائے الہٰی کھانا اور نگہداری امرونہی کی ضد ہے سہل انگاری اور دعا کی ضد ہے اس سے روگردانی اور نشاط کی ضد ہے کاہلی ، خوشی کی ضد حزن ہے الفت کی ضد فرقت اور سخاوت کی ضد بخل ہے۔
اجنادِ عقل کی یہ تمام قسمیں نہیں جمع ہوتیں مگر نبی یا وصیِ نبی میں اس مومن میں جس کے ایمان قلبی کا امتحان خدا نے لے لیا ہو رہے باقی ہمارے موالی تو ان میں سے کوئی ایسا نہیں جس میں جنودِ عقل سے کوئی چیز نہ پائی جاتی ہو مگر جنود جہل سے بھی اس میں کچھ ہو گا۔ لہذا وہ بلند درجہ میں انبیاء اور اوصیاء کے ساتھ ہو گا اور وہ یہ درجہ پائے گا عقل اور اس کے لشکر کی معرفت اور جہل سے دور کر دینے کی بناء پر خدا ہم کو اور تم کو اپنی اطاعت اور مرضی کی توفیق دے۔

حدیث نمبر 15

جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله قَالَ مَا كَلَّمَ رَسُولُ الله ﷺ الْعِبَادَ بِكُنْهِ عَقْلِهِ قَطُّ وَقَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ إِنَّا مَعَاشِرَ الانْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُكَلِّمَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمْ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ، نہیں کلام کیا رسول اللہ ﷺ نے بندوں سے ان کی عقل کے مطابق اور حضرت نے فرمایا ہم گروہ انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے بقدر ان کی عقلوں کے کلام کریں۔

حدیث نمبر 16

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ قُلُوبَ الْجُهَّالِ تَسْتَفِزُّهَا الاطْمَاعُ وَتَرْتَهِنُهَا الْمُنَى وَتَسْتَعْلِقُهَا الْخَدَائِعُ۔

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ جہال کے دل ان شکاری جانوروں کی طرح ہیں کہ طمع ان کو اپنی جگہ سے نکالتی ہے اور وہ شیطانی فریب کے جال میں پھنس جاتےہیں۔

حدیث نمبر 17

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ الله الدِّهْقَانِ عَنْ دُرُسْتَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام أَكْمَلُ النَّاسِ عَقْلاً أَحْسَنُهُمْ خُلُقاً۔

علی بن ابراھیم نے اپنے والد سے انھوں نے جعفر بن محمد الاشعری سے اور انھوں نے عبید اللہ الدھقان سے، عبید اللہ الدھقان نے دُرست اور دُرست نے ابراھیم بن الحمید سے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جس کا خُلق اچھا ہے وہی لوگوں میں کامل العقل ہے۔

حدیث نمبر 18

عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ كُنَّا عِنْدَ الرِّضَا علیہ السلام فَتَذَاكَرْنَا الْعَقْلَ وَالادَبَ فَقَالَ يَا أَبَا هَاشِمٍ الْعَقْلُ حِبَاءٌ مِنَ الله وَالادَبُ كُلْفَةٌ فَمَنْ تَكَلَّفَ الادَبَ قَدَرَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَكَلَّفَ الْعَقْلَ لَمْ يَزْدَدْ بِذَلِكَ إِلا جَهْلاً۔

ابو ہاشم جعفری سے مروی ہے کہ ہم امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے پس عقل اور عقلمندی کا تذکرہ ہونے لگا۔ حضرت نے فرمایا اے بوہاشم عقل بخشش الہٰی ہے جو کسی کو کم ملی ہے اور کسی کو زیادہ اور خردمندی اختیاری ہے جو بڑھانا چاہے گا بڑھا لے گا اور جو دعوتِ عقل و فہم کرے گا اور علم کو اپنے سے بلند پایہ انسان سے حاصل نہ کرے وہ جہالت کو بڑھائے گا۔

حدیث نمبر 19

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جَبَلَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ لِي جَاراً كَثِيرَ الصَّلاةِ كَثِيرَ الصَّدَقَةِ كَثِيرَ الْحَجِّ لا بَأْسَ بِهِ قَالَ فَقَالَ يَا إِسْحَاقُ كَيْفَ عَقْلُهُ قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ لَيْسَ لَهُ عَقْلٌ قَالَ فَقَالَ لا يَرْتَفِعُ بِذَلِكَ مِنْهُ۔

اسحاق بن عمار سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کی کہ میرا ایک پڑوسی ہے جو بہت نمازیں پڑھتا ہے ، بہت صدقہ دیتا ہے اور بہت حج کرتا ہے ، فرمایا اے اسحاق اس کی عقل کیسی ہے، میں نے کہا اسے عقل نہیں، فرمایا تو وہ ان عبادت سے فائدہ حاصل نہیں پائے گا۔

حدیث نمبر 20

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ السَّيَّارِيِّ عَنْ أَبِي يَعْقُوبَ الْبَغْدَادِيِّ قَالَ قَالَ ابْنُ السِّكِّيتِ لابِي الْحَسَنِ لِمَا ذَا بَعَثَ الله مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ بِالْعَصَا وَيَدِهِ الْبَيْضَاءِ وَآلَةِ السِّحْرِ وَبَعَثَ عِيسَى بِآلَةِ الطِّبِّ وَبَعَثَ مُحَمَّداً صَلَّى الله عَلَيْهِ وَآلِهِ وَعَلَى جَمِيعِ الانْبِيَاءِ بِالْكَلامِ وَالْخُطَبِ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام إِنَّ الله لَمَّا بَعَثَ مُوسَى كَانَ الْغَالِبُ عَلَى أَهْلِ عَصْرِهِ السِّحْرَ فَأَتَاهُمْ مِنْ عِنْدِ الله بِمَا لَمْ يَكُنْ فِي وُسْعِهِمْ مِثْلُهُ وَمَا أَبْطَلَ بِهِ سِحْرَهُمْ وَأَثْبَتَ بِهِ الْحُجَّةَ عَلَيْهِمْ وَإِنَّ الله بَعَثَ عِيسَى فِي وَقْتٍ قَدْ ظَهَرَتْ فِيهِ الزَّمَانَاتُ وَاحْتَاجَ النَّاسُ إِلَى الطِّبِّ فَأَتَاهُمْ مِنْ عِنْدِ الله بِمَا لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ مِثْلُهُ وَبِمَا أَحْيَا لَهُمُ الْمَوْتَى وَأَبْرَأَ الاكْمَهَ وَالابْرَصَ بِإِذْنِ الله وَأَثْبَتَ بِهِ الْحُجَّةَ عَلَيْهِمْ وَإِنَّ الله بَعَثَ مُحَمَّداً ﷺ فِي وَقْتٍ كَانَ الْغَالِبُ عَلَى أَهْلِ عَصْرِهِ الْخُطَبَ وَالْكَلامَ وَأَظُنُّهُ قَالَ الشِّعْرَ فَأَتَاهُمْ مِنْ عِنْدِ الله مِنْ مَوَاعِظِهِ وَحِكَمِهِ مَا أَبْطَلَ بِهِ قَوْلَهُمْ وَأَثْبَتَ بِهِ الْحُجَّةَ عَلَيْهِمْ قَالَ فَقَالَ ابْنُ السِّكِّيتِ تَالله مَا رَأَيْتُ مِثْلَكَ قَطُّ فَمَا الْحُجَّةُ عَلَى الْخَلْقِ الْيَوْمَ قَالَ فَقَالَ الْعَقْلُ يُعْرَفُ بِهِ الصَّادِقُ عَلَى الله فَيُصَدِّقُهُ وَالْكَاذِبُ عَلَى الله فَيُكَذِّبُهُ قَالَ فَقَالَ ابْنُ السِّكِّيتِ هَذَا وَالله هُوَ الْجَوَابُ۔

ابو یعقوب بغدادی سے روایت ہے کہ ابن سکیت نے امام علی نقی علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیوں بھیجا خدا نے موسیٰ علیہ السلام کو عصا اور ید بیضا اور دیگر چیزیں دے کر جو جادو جیسی تھیں اور عیسیٰ علیہ السلام کو آلاتِ طب جیسی چیزوں کے ساتھ بھیجا، اور محمد مصطفیٰ ﷺ کو خدا کا درود ہو ان پر اور تمام انبیاء پر کلام و خطاب کے ساتھ بھیجا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جس زمانہ میں خدا نے موسیٰ علیہ السلام کو معبوث کیا اس زمانہ میں لوگوں پر سحر کا بڑا غلبہ تھا۔ پس موسیٰ علیہ السلام نے دکھلائی ان کو خدا کی طرف سے ایسی چیز کہ اس کی مثل لانا ان کی طاقت سے باہر تھا ان معجزات سے ان کے سحر زائل ہو گئے اور خدا کی حجت ان پر ثابت ہو گئی اور عیسیٰ کے زمانہ میں طبِ کا بڑا زور تھا پس خدا نے ان کو وہ چیز دی جو لوگوں کے پاس نہ تھی پس انھوں نے مُردوں کو زندہ کیا اور مبروصوں اور مجذوموں کو اچھا کیا، باذنِ خدا اور اس طرح خدا کی حجت ان پر تمام ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو بھیجا ایسے زمانے میں جب کہ لوگوں پر خطبوں اور کلام کا بہت زیادہ اثر تھا، پس خدا نے آنحضرت ﷺ کو مواعظ دیے اور اپنا کلام جس نے ان لوگوں کے قول کو باطل کر دیا اور خدا کی حجت ان لوگوں پر قائم کر دی۔ ابن سکیت نے یہ سن کر کہا میں نے آپ جیسا عالم کبھی نہیں دیکھا۔ پھر کہا یہ بھی ارشاد ہو کہ اب خدا کی حجت اس کی مخلوق پر کون ہے۔ فرمایا عقل جس سے پہچانا جاتا ہے اس صادق کو جو اللہ کی طرف سے ہدایت لاتا ہے پس عقل اس کی تصدیق کرتی ہے اور جھوٹے کو پہچان کر اس کی تکذیب کرتی ہے ابن سکیت نے کہا بیشک یہی جواب ہے۔

حدیث نمبر 21

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنِ الْمُثَنَّى الْحَنَّاطِ عَنْ قُتَيْبَةَ الاعْشَى عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ مَوْلىً لِبَنِي شَيْبَانَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ إِذَا قَامَ قَائِمُنَا وَضَعَ الله يَدَهُ عَلَى رُءُوسِ الْعِبَادِ فَجَمَعَ بِهَا عُقُولَهُمْ وَكَمَلَتْ بِهِ أَحْلامُهُمْ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ، جب ہمارا قائم خروج کرے گا تو خدا اپنی رحمت کا ہاتھ لوگوں کے سر پر رکھے گا جس سے ان کی عقلیں درست اور افہام کامل ہونگے۔

حدیث نمبر 22

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ حُجَّةُ الله عَلَى الْعِبَادِ النَّبِيُّ وَالْحُجَّةُ فِيمَا بَيْنَ الْعِبَادِ وَبَيْنَ الله الْعَقْلُ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ نبی خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہے اور اللہ اور بندوں کے درمیان عقل حجت ہے۔

حدیث نمبر 23

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ مُرْسَلاً قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام دِعَامَةُ الانْسَانِ الْعَقْلُ وَالْعَقْلُ مِنْهُ الْفِطْنَةُ وَالْفَهْمُ وَالْحِفْظُ وَالْعِلْمُ وَبِالْعَقْلِ يَكْمُلُ وَهُوَ دَلِيلُهُ وَمُبْصِرُهُ وَمِفْتَاحُ أَمْرِهِ فَإِذَا كَانَ تَأْيِيدُ عَقْلِهِ مِنَ النُّورِ كَانَ عَالِماً حَافِظاً ذَاكِراً فَطِناً فَهِماً فَعَلِمَ بِذَلِكَ كَيْفَ وَلِمَ وَحَيْثُ وَعَرَفَ مَنْ نَصَحَهُ وَمَنْ غَشَّهُ فَإِذَا عَرَفَ ذَلِكَ عَرَفَ مَجْرَاهُ وَمَوْصُولَهُ وَمَفْصُولَهُ وَأَخْلَصَ الْوَحْدَانِيَّةَ لله وَالاقْرَارَ بِالطَّاعَةِ فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ كَانَ مُسْتَدْرِكاً لِمَا فَاتَ وَوَارِداً عَلَى مَا هُوَ آتٍ يَعْرِفُ مَا هُوَ فِيهِ وَلايِّ شَيْءٍ هُوَ هَاهُنَا وَمِنْ أَيْنَ يَأْتِيهِ وَإِلَى مَا هُوَ صَائِرٌ وَذَلِكَ كُلُّهُ مِنْ تَأْيِيدِ الْعَقْلِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ستون انسانیت عقل ہے اور خردمندی سے چار چیزیں حاصل ہوتی ہیں اول محکمات قرآنی سے باطل اماموں کے عیب بتانا اور دوسرے اماما ن حق کے مرتبہ کو سمجھنا ، تیسرے اپنی حد کو نگاہ رکھنا ، متشابہات قرآن وغیرہ میں ، چوتھے یاد کرنا مسائل دین کا امامانِ حق سے اور عقل سے آدمی کامل ہوتا ہے عقل رہنمائے انسان ہوتی ہے چراغ چشم ہے اور کلید کار بستہ پس عقل کی مدد سے انسان دلائل ربوبیت اور محکماتِ قرآن کا عالم ہوتا ہے مسائل دین کی حفاظت کرتا ہے اور ثناء امامانِ حق کرتا ہے اور ان کے مرتبہ کا سمجھنے والا ہوتا ہے پس وہ جان لیتا ہے کہ پیغمبر کے بعد اس کی اُمت کا حال کیا ہوا اور کیوں ہوا اور کہاں ہوا اور وہ جانتا ہے کہ کس سے ملے اور کس سے الگ رہے تو اس نے حق کے مجراہے و موصول کو پہچان لیا۔ پھر اس توحیدِ رب کو خلوص سے لیا اور اس کی اطاعت کا اقرار کیا۔ جب ایسا کیا تو اس نے فوت شدہ چیز کو پا لیا اور آنے والی حالت کو سمجھ لیا اور یہ بھی جان لیا کہ وہ کن حالات میں ہے اور کس وجہ سے ہے کہاں سے آیا اور کہاں جا رہا ہے یہ سب بتائید عقل ہے۔

حدیث نمبر 24

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ بَعْضِ رِجَالِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ الْعَقْلُ دَلِيلُ الْمُؤْمِنِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے عقل مومن کی رہنما ہے۔

حدیث نمبر 25

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنِ السَّرِيِّ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ يَا عَلِيُّ لا فَقْرَ أَشَدُّ مِنَ الْجَهْلِ وَلا مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ۔

حضرت رسولِ خدا نے فرمایا، جہالت سے بڑھ کر محتاجی نہیں اورعقل سے زیادہ مفید تر کوئی چیز نہیں۔

حدیث نمبر 26

مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفرعلیہ السلام قَالَ لَمَّا خَلَقَ الله الْعَقْلَ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ فَقَالَ وَعِزَّتِي وَجَلالِي مَا خَلَقْتُ خَلْقاً أَحْسَنَ مِنْكَ إِيَّاكَ آمُرُ وَإِيَّاكَ أَنْهَى وَإِيَّاكَ أُثِيبُ وَإِيَّاكَ أُعَاقِبُ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، خدا نے عقل کو پیدا کیا پس اس سے کہا آگے آ ، وہ آگے آئی ، پھر کہا پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹی، پھر فرمایا قسم ہے اپنے عزت و جلال کی میں نے کوئی مخلوق تجھ سے زیادہ اچھی پیدا نہیں کی ، میں تجھ ہی کو امر و نہی کا حکم دیتا ہوں اور تجھ ہی سے ثواب دوں گا اور تجھ ہی سے عذاب دوں گا۔

حدیث نمبر 27

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ أَبِي مَسْرُوقٍ النَّهْدِيِّ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام الرَّجُلُ آتِيهِ وَأُكَلِّمُهُ بِبَعْضِ كَلامِي فَيَعْرِفُهُ كُلَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ آتِيهِ فَأُكَلِّمُهُ بِالْكَلامِ فَيَسْتَوْفِي كَلامِي كُلَّهُ ثُمَّ يَرُدُّهُ عَلَيَّ كَمَا كَلَّمْتُهُ وَمِنْهُمْ مَنْ آتِيهِ فَأُكَلِّمُهُ فَيَقُولُ أَعِدْ عَلَيَّ فَقَالَ يَا إِسْحَاقُ وَمَا تَدْرِي لِمَ هَذَا قُلْتُ لا قَالَ الَّذِي تُكَلِّمُهُ بِبَعْضِ كَلامِكَ فَيَعْرِفُهُ كُلَّهُ فَذَاكَ مَنْ عُجِنَتْ نُطْفَتُهُ بِعَقْلِهِ وَأَمَّا الَّذِي تُكَلِّمُهُ فَيَسْتَوْفِي كَلامَكَ ثُمَّ يُجِيبُكَ عَلَى كَلامِكَ فَذَاكَ الَّذِي رُكِّبَ عَقْلُهُ فِيهِ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَأَمَّا الَّذِي تُكَلِّمُهُ بِالْكَلامِ فَيَقُولُ أَعِدْ عَلَيَّ فَذَاكَ الَّذِي رُكِّبَ عَقْلُهُ فِيهِ بَعْدَ مَا كَبِرَ فَهُوَ يَقُولُ لَكَ أَعِدْ عَلَيَّ۔

اسحاق بن عمار سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ میں ایک شخص کے پاس آتا ہوں اور اس سے کلام کرتا ہوں، تھوڑا سا وہ میرے کل کلام کا مطلب سمجھ جاتا ہے اور بیان کر دیتا ہے جو کچھ میں نے اس سے بیان کیا، دوسرا وہ ہے کہ جب میں اس سے پوری بات بیان کردیتا ہوں تب سمجھتا ہے اور تیسرا وہ ہے کہ جب میں اس سے بیان کرتا ہوں تو وہ اعادہ چاہتا ہے، فرمایا جو بعض کلام سے پوری بات سمجھ جاتا ہے وہ وہ ہے جس کے نطفہ میں عقل خمیر ہے اور دوسرا وہ ہے جس کو عقل ملی ہے بطن مادر میں اور تیسرا وہ ہے جس کو بڑا ہونے پر عقل ملی ہے۔

حدیث نمبر 28

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ مَنْ رَفَعَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ كَثِيرَ الصَّلاةِ كَثِيرَ الصِّيَامِ فَلا تُبَاهُوا بِهِ حَتَّى تَنْظُرُوا كَيْفَ عَقْلُهُ۔

حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا ، جب تم کسی کو نماز روزہ کرنے والا پاؤ تو اس پر فخر نہ کرو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ اس کی عقل کیسی ہے۔

حدیث نمبر 29

بَعْضُ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ يَا مُفَضَّلُ لا يُفْلِحُ مَنْ لا يَعْقِلُ وَلا يَعْقِلُ مَنْ لا يَعْلَمُ وَسَوْفَ يَنْجُبُ مَنْ يَفْهَمُ وَيَظْفَرُ مَنْ يَحْلُمُ وَالْعِلْمُ جُنَّةٌ وَالصِّدْقُ عِزٌّ وَالْجَهْلُ ذُلٌّ وَالْفَهْمُ مَجْدٌ وَالْجُودُ نُجْحٌ وَحُسْنُ الْخُلُقِ مَجْلَبَةٌ لِلْمَوَدَّةِ وَالْعَالِمُ بِزَمَانِهِ لا تَهْجُمُ عَلَيْهِ اللَّوَابِسُ وَالْحَزْمُ مَسَاءَةُ الظَّنِّ وَبَيْنَ الْمَرْءِ وَالْحِكْمَةِ نِعْمَةُ الْعَالِمِ وَالْجَاهِلُ شَقِيٌّ بَيْنَهُمَا وَالله وَلِيُّ مَنْ عَرَفَهُ وَعَدُوُّ مَنْ تَكَلَّفَهُ وَالْعَاقِلُ غَفُورٌ وَالْجَاهِلُ خَتُورٌ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تُكْرَمَ فَلِنْ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تُهَانَ فَاخْشُنْ وَمَنْ كَرُمَ أَصْلُهُ لانَ قَلْبُهُ وَمَنْ خَشُنَ عُنْصُرُهُ غَلُظَ كَبِدُهُ وَمَنْ فَرَّطَ تَوَرَّطَ وَمَنْ خَافَ الْعَاقِبَةَ تَثَبَّتَ عَنِ التَّوَغُّلِ فِيمَا لا يَعْلَمُ وَمَنْ هَجَمَ عَلَى أَمْرٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ جَدَعَ أَنْفَ نَفْسِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ لَمْ يَفْهَمْ وَمَنْ لَمْ يَفْهَمْ لَمْ يَسْلَمْ وَمَنْ لَمْ يَسْلَمْ لَمْ يُكْرَمْ وَمَنْ لَمْ يُكْرَمْ يُهْضَمْ وَمَنْ يُهْضَمْ كَانَ أَلْوَمَ وَمَنْ كَانَ كَذَلِكَ كَانَ أَحْرَى أَنْ يَنْدَمَ۔

مفضل ابن عمر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا ، نہیں فلاح پائے گا وہ جسے عقل نہیں اور نہیں اس کو عقل جس کے پاس علم نہیں۔ جو فہم رکھتا ہے وہ شرافت حاصل کر لے گا اور جو حلیم ہے وہ فتح پائے گا علم سپر ہے راستی عزت ہے ، جہل ذلت ہے اور فہم اور مال سے سخاوت کرنا باعثِ نجات ہے اور حُسن خلق جالبِ مودت ہے عالم زمانہ پر وسواس شیطانی کا غلبہ نہیں ہوتا اور پختہ کاری یہ ہے کہ لوگوں کی ظاہری حالت سے دھوکہ نہ کھائے کیونکہ اکثر لوگوں کا باطن خراب ہوتا ہے آدمی اور حکمت کے درمیان عالمِ دانا نعمت ہے اور جاہل شقی ہے ان کے درمیان خدا دوست ہے جس نے اس کی معرفت حاصل کی اور پیروی ظن نہ کی اور دشمن ہے اس کا جس نے اسے رب العالمین نہ سمجھا ، خردمند بخشنے والا بے ادبی کا ہے اور جاہل فریب دینے والا ہے اگر تو گرامی قدر ہونا چاہتا ہے تو نرمی کر اور اگر چاہتا ہے کہ لوگ تجھے ذلیل سمجھیں تو سختی کر جس کی نسل بزرگ ہوتی ہے اس کا دل نرم ہوتا ہے جس کی ذات بد ہوتی ہے اس کا دل سخت ہوتا ہے جو بولنے میں جلدی کرتا ہے وہ نجات سے دور رہتا ہے جو عافیت اندیش ہے وہ جس چیز کو نہیں جانتا اس سے دور رہنے میں خودداری کرتا ہے اور بغیر علم کسی چیز میں دخل دیتا ہے وہ ذلیل ہوتا ہے جو نہیں جانتا کہ امام حق کون ہے وہ نہیں سمجھتا اور جو نہیں سمجھتا وہ شبہات سے محفوظ نہیں رہتا اور جو ایسا نہیں وہ عزاز نہیں عنداللہ مکرم ہے اور جو ایسا ہے وہ لوگوں کے درمیان سرزنش کیا ہوا ہے اور جو ایسا ہے وہ ملامت کیا ہوا ہے اور جو ایسا ہے اس کا نتیجہ ندامت ہے۔

حدیث نمبر 30

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام مَنِ اسْتَحْكَمَتْ لِي فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ احْتَمَلْتُهُ عَلَيْهَا وَاغْتَفَرْتُ فَقْدَ مَا سِوَاهَا وَلا أَغْتَفِرُ فَقْدَ عَقْلٍ وَلا دِينٍ لانَّ مُفَارَقَةَ الدِّينِ مُفَارَقَةُ الامْنِ فَلا يَتَهَنَّأُ بِحَيَاةٍ مَعَ مَخَافَةٍ وَفَقْدُ الْعَقْلِ فَقْدُ الْحَيَاةِ وَلا يُقَاسُ إِلا بِالامْوَاتِ۔

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا جس میں نیک خصلتوں میں سے ایک خصلت بھی پاؤں گا تو میں اپنے شیعوں میں شمار کر لوں گا اس ایک خصلت کی وجہ سے اور معاف کر دوں گا اس کے ماسوا کو اور نہیں معاف کروں گا فقدان عقل کو اور فقدان دین کو، کیونکہ دین سے مفارقت خوف ہے اور خوف کے ساتھ زندگی خوشگوار نہیں اور عقل کا نہ ہونا زندگی کا نہ ہونا ہے جس کا قیاس مُردوں پر کرنا چاہیے۔

حدیث نمبر 31

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْمُحَارِبِيِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُوسَى عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مَيْمُونِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام إِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ دَلِيلٌ عَلَى ضَعْفِ عَقْلِهِ۔

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ، انسان کا اپنے نفس پر مغرور ہونا اس کی عقل کی کمزوری کی دلیل ہے۔

حدیث نمبر 32

أَبُو عَبْدِ الله الْعَاصِمِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا قَالَ ذُكِرَ عِنْدَهُ أَصْحَابُنَا وَذُكِرَ الْعَقْلُ قَالَ فَقَالَ لا يُعْبَأُ بِأَهْلِ الدِّينِ مِمَّنْ لا عَقْلَ لَهُ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ مِمَّنْ يَصِفُ هَذَا الامْرَ قَوْماً لا بَأْسَ بِهِمْ عِنْدَنَا وَلَيْسَتْ لَهُمْ تِلْكَ الْعُقُولُ فَقَالَ لَيْسَ هَؤُلاءِ مِمَّنْ خَاطَبَ الله إِنَّ الله خَلَقَ الْعَقْلَ فَقَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ وَقَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ فَقَالَ وَعِزَّتِي وَجَلالِي مَا خَلَقْتُ شَيْئاً أَحْسَنَ مِنْكَ أَوْ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْكَ بِكَ آخُذُ وَبِكَ أُعْطِي۔

حسن ابن جہم سے مروی ہے کہ امام رضا علیہ السلام کے سامنے عقل کا ذکر آیا، حضرت نے فرمایا، اہل دین کے لیے وہ لوگ ساقط الاعتبار ہیں جن کو عقل نہیں، میں نے کہا ہم شیعوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن میں بظاہر کوئی عیب نظر نہیں آتا، لیکن وہ صاحب عقل نہیں، فرمایا تو یہ لوگ ان میں سے نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا ہے کہ جب اس نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا آگے آ، پس وہ آگے آئی، پھر کہا پیچھے ہٹ، پس وہ پیچھے ہٹی۔ پھر فرمایا قسم ہے اپنے عزت و جلال کی میں نے تجھ سے بہتر کسی کو پیدا نہیں کیا۔ تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے میں تیری ہی وجہ سے مواخذہ کروں گا اور تیری ہی وجہ سے عطا کروں گا۔

حدیث نمبر 33

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله قَالَ لَيْسَ بَيْنَ الايمَانِ وَالْكُفْرِ إِلا قِلَّةُ الْعَقْلِ قِيلَ وَكَيْفَ ذَاكَ يَا ابْنَ رَسُولِ الله قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ يَرْفَعُ رَغْبَتَهُ إِلَى مَخْلُوقٍ فَلَوْ أَخْلَصَ نِيَّتَهُ لله لاتَاهُ الَّذِي يُرِيدُ فِي أَسْرَعَ مِنْ ذَلِكَ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ کفر ایمان کے درمیان نہیں ہے فرق مگر قلتِ عقل کا ۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیسے یابن رسول اللہ، فرمایا، کبھی بندہ اپنی حاجت کو دوسرے بندہ کی طرف لے جاتا ہے پس اگر اس امر میں اس کی نیت خالص ہوتی ہے اور اللہ کی طرف اس کی رجوع باقی رہتی ہے تو اللہ جلد اس کی حاجت کو بَر لاتا ہے۔

حدیث نمبر 34

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عُبَيْدِ الله الدِّهْقَانِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْحَلَبِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ بِالْعَقْلِ اسْتُخْرِجَ غَوْرُ الْحِكْمَةِ وَبِالْحِكْمَةِ اسْتُخْرِجَ غَوْرُ الْعَقْلِ وَبِحُسْنِ السِّيَاسَةِ يَكُونُ الادَبُ الصَّالِحُ قَالَ وَكَانَ يَقُولُ التَّفَكُّرُ حَيَاةُ قَلْبِ الْبَصِيرِ كَمَا يَمْشِي الْمَاشِي فِي الظُّلُمَاتِ بِالنُّورِ بِحُسْنِ التَّخَلُّصِ وَقِلَّةِ التَّرَبُّصِ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ عقل سے حکمت حاصل ہوتی ہے اور حکمت سے عقل اور اچھی نگہبان سے ادبِ صالح حاصل ہوتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ تفکر عقل مند کے قلب کی حیات ہے جیسا کہ چلتا ہے چلنے والا تاریکیوں میں نور کے ساتھ خوبی نجات اور کمی و رنگ کو لے کر۔