مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي مُحَمَّدٍ علیہ السلام أَسْأَلُهُ كَيْفَ يَعْبُدُ الْعَبْدُ رَبَّهُ وَهُوَ لا يَرَاهُ فَوَقَّعَ يَا أَبَا يُوسُفَ جَلَّ سَيِّدِي وَمَوْلايَ وَالْمُنْعِمُ عَلَيَّ وَعَلَى آبَائِي أَنْ يُرَى قَالَ وَسَأَلْتُهُ هَلْ رَأَى رَسُولُ الله ﷺ رَبَّهُ فَوَقَّعَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَرَى رَسُولَهُ بِقَلْبِهِ مِنْ نُورِ عَظَمَتِهِ مَا أَحَبَّ۔
ابو یوسف سے مروی ہے کہ میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو لکھا کہ جب بندہ نے اپنے رب کو دیکھا ہی نہیں تو وہ اس کی عبادت کیسے کرے۔ آپ نے جواب میں لکھا، اے ابو یوسف میرا سردار، میرا مولا، میرا آقا، میرا منعم بالاتر ہے اس سے کہ دیکھا جائے۔ میں نے پوچھا کیا معراج میں رسولِ خدا ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ خدا نے دکھایا قلبِ رسول کو اپنے نورِ عظمت سے جتنا چاہا۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى قَالَ سَأَلَنِي أَبُو قُرَّةَ الْمُحَدِّثُ أَنْ أُدْخِلَهُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام فَاسْتَأْذَنْتُهُ فِي ذَلِكَ فَأَذِنَ لِي فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنِ الْحَلالَ وَالْحَرَامِ وَالاحْكَامِ حَتَّى بَلَغَ سُؤَالُهُ إِلَى التَّوْحِيدِ فَقَالَ أَبُو قُرَّةَ إِنَّا رُوِّينَا أَنَّ الله قَسَمَ الرُّؤْيَةَ وَالْكَلامَ بَيْنَ نَبِيَّيْنِ فَقَسَمَ الْكَلامَ لِمُوسَى وَلِمُحَمَّدٍ الرُّؤْيَةَ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام فَمَنِ الْمُبَلِّغُ عَنِ الله إِلَى الثَّقَلَيْنِ مِنَ الْجِنِّ وَالانْسِ لا تُدْرِكُهُ الابْصَارُ وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ أَ لَيْسَ مُحَمَّدٌ قَالَ بَلَى قَالَ كَيْفَ يَجِيءُ رَجُلٌ إِلَى الْخَلْقِ جَمِيعاً فَيُخْبِرُهُمْ أَنَّهُ جَاءَ مِنْ عِنْدِ الله وَأَنَّهُ يَدْعُوهُمْ إِلَى الله بِأَمْرِ الله فَيَقُولُ لا تُدْرِكُهُ الابْصَارُ وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا رَأَيْتُهُ بِعَيْنِي وَأَحَطْتُ بِهِ عِلْماً وَهُوَ عَلَى صُورَةِ الْبَشَرِ أَ مَا تَسْتَحُونَ مَا قَدَرَتِ الزَّنَادِقَةُ أَنْ تَرْمِيَهُ بِهَذَا أَنْ يَكُونَ يَأْتِي مِنْ عِنْدِ الله بِشَيْءٍ ثُمَّ يَأْتِي بِخِلافِهِ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ قَالَ أَبُو قُرَّةَ فَإِنَّهُ يَقُولُ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرىفَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام إِنَّ بَعْدَ هَذِهِ الايَةِ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا رَأَى حَيْثُ قَالَ ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأىيَقُولُ مَا كَذَبَ فُؤَادُ مُحَمَّدٍ مَا رَأَتْ عَيْنَاهُ ثُمَّ أَخْبَرَ بِمَا رَأَى فَقَالَ لَقَدْ رَأىمِنْ آياتِ رَبِّهِ الْكُبْرىفَآيَاتُ الله غَيْرُ الله وَقَدْ قَالَ الله وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً فَإِذَا رَأَتْهُ الابْصَارُ فَقَدْ أَحَاطَتْ بِهِ الْعِلْمُ وَوَقَعَتِ الْمَعْرِفَةُ فَقَالَ أَبُو قُرَّةَ فَتُكَذِّبُ بِالرِّوَايَاتِ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام إِذَا كَانَتِ الرِّوَايَاتُ مُخَالِفَةً لِلْقُرْآنِ كَذَّبْتُهَا وَمَا أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ أَنَّهُ لا يُحَاطُ بِهِ عِلْماً وَلا تُدْرِكُهُ الابْصَارُ وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ۔
صفوان بن یحیٰی سے مروی ہے کہ مجھ سے ابو قرۃ نے امام رضا علیہ السلام سے ملنے کی خواہش کی۔ میں نے حضرت سے اجازت چاہی۔ وہ آیا اور اس نے حضرت سے حلال و حرام کے متعلق سوال کیا۔ اس کے بعد توحید کا نمبر آیا۔ اس نے کہا ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا نے تقسیم کی رویت اور کلام کو دو نبیوں پر، موسیٰ کو کلام سے مخصوص کیا اور محمد کو رویت سے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا، خدا نے جن و انس کی طرف وہ کون بھیجا گیا ہے جس نے یہ خبر دی کہ بینائیاں اس کا ادراک نہیں کرتیں اور ازروئے علم اس کا ادراک اور اس کا احاطہ ممکن نہیں اور اس کا مثل کوئی نہیں۔ کیا یہ خبر دینے والے محمد نہیں۔ اس نے کہا وہی ہیں۔ فرمایا کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص تمام مخلوق کی طرف آئے اور کہے کہ میں اللہ کی طرف سے آیا ہوں اور پھر وہ حکم خدا سے لوگوں کو امر خدا کی طرف دعوت دے اور کہے وہ ایسا ہے کہ بینائیاں اسے نہیں پاتیں اور علم اس کا احاطہ نہیں کرتے اور وہی یہ بھی کہے کہ وہ بشری صورت پر ہے۔ کیا تم کو حیا نہیں آتی کہ زندیقوں کی طرح حضرت کو نشانہِ ملامت بناؤ اس بات پر کہ وہ کبھی خدا کی طرف سے ایک بات بیان کرتے ہیں اور کبھی اس کے خلاف۔ ابو قرہ نے کہا کہ خدا ہی تو فرماتا ہے کہ انھوں نے دیکھا اس کو نزلہ اخریٰ میں۔ حضرت نے فرمایا اس بعد کی آیت یہ بھی تو ہے کہ جو کچھ محمد نے دیکھا اس کے دل نے اسے جھٹلایا نہیں۔ پھر یہ بھی بتایا کہ کیا دیکھا۔ خدا کی آیتوں میں سے ایک بڑی آیت دیکھی اور آیات الٰہیہ اللہ کے غیر ہیں۔ خدا نے فرمایا کوئی ازروئے علم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا اور جب آنکھیں اسے دیکھ لیں تو علم نے احاطہ کر لیا اور معرفت واقع ہو گئی۔ ابو قرہ نے کہا آپ نے روایت کی تکذیب کی۔
حضرت نے فرمایا جو روایتیں مخالف قرآن ہوں ان کی تکذیب کرتا ہوں اور مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ کوئی علم خدا کا احاطہ نہیں کر سکتا اور یہ بینائیاں اس کو نہیں پا سکتیں اور اس کی مثل کوئی شے نہیں۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَيْفٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام أَسْأَلُهُ عَنِ الرُّؤْيَةِ وَمَا تَرْوِيهِ الْعَامَّةُ وَالْخَاصَّةُ وَسَأَلْتُهُ أَنْ يَشْرَحَ لِي ذَلِكَ فَكَتَبَ بِخَطِّهِ اتَّفَقَ الْجَمِيعُ لا تَمَانُعَ بَيْنَهُمْ أَنَّ الْمَعْرِفَةَ مِنْ جِهَةِ الرُّؤْيَةِ ضَرُورَةٌ فَإِذَا جَازَ أَنْ يُرَى الله بِالْعَيْنِ وَقَعَتِ الْمَعْرِفَةُ ضَرُورَةً ثُمَّ لَمْ تَخْلُ تِلْكَ الْمَعْرِفَةُ مِنْ أَنْ تَكُونَ إِيمَاناً أَوْ لَيْسَتْ بِإِيمَانٍ فَإِنْ كَانَتْ تِلْكَ الْمَعْرِفَةُ مِنْ جِهَةِ الرُّؤْيَةِ إِيمَاناً فَالْمَعْرِفَةُ الَّتِي فِي دَارِ الدُّنْيَا مِنْ جِهَةِ الاكْتِسَابِ لَيْسَتْ بِإِيمَانٍ لانَّهَا ضِدُّهُ فَلا يَكُونُ فِي الدُّنْيَا مُؤْمِنٌ لانَّهُمْ لَمْ يَرَوُا الله عَزَّ ذِكْرُهُ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ تِلْكَ الْمَعْرِفَةُ الَّتِي مِنْ جِهَةِ الرُّؤْيَةِ إِيمَاناً لَمْ تَخْلُ هَذِهِ الْمَعْرِفَةُ الَّتِي مِنْ جِهَةِ الاكْتِسَابِ أَنْ تَزُولَ وَلا تَزُولُ فِي الْمَعَادِ فَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لا يُرَى بِالْعَيْنِ إِذِ الْعَيْنُ تُؤَدِّي إِلَى مَا وَصَفْنَاهُ۔
محمد بن عبید سے مروی ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو مسئلہ رویت اور عامہ اور خاصہ کی روایت کے متعلق لکھا اور اس کی شرح چاہی۔ حضرت نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا کہ مخالفوں کا اس پر اجماع ہے کہ خدا کی معرفت ازروئے رویت ضروری ہے۔ اور جب اللہ کو آنکھ سے دیکھنا جائز ہو گا تو اس کی معرفت بھی ضروری ہو گی پس اس قسم کی معرفت یا تو ازروئے ایمان ہو گی یا ازروئے ایمان نہ ہو گی۔ اگر ازروئے رویت یہ معرفت ایمان قرار پائے گی تو جو معرفت اس دنیا میں آثار قدرت کے معائنہ سے حاصل ہو گی وہ ایمان قرار نہ پائے گی کیونکہ ضد رویت ہے اس صورت میں کوئی مومن دنیا میں پایا ہی نہ جائے گا کیونکہ کسی نے خدا کو نہیں دیکھا اور اگر یہ معرفت ازروئے رویت نہ ہو گی تو اس معرفت میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو گی جو ازروئے اکتساب ہو گی۔ قیامت میں بھی یہ معرفت قائم رہے گی۔ یہ دلیل ہے کہ اس کی کہ خدا آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا کیونکہ آنکھ سے دیکھنا وہی خرابی پیدا کرتا ہے جس کو ہم نے بیان کیا۔
وَعَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الثَّالِثِ علیہ السلام أَسْأَلُهُ عَنِ الرُّؤْيَةِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ النَّاسُ فَكَتَبَ لا تَجُوزُ الرُّؤْيَةُ مَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الرَّائِي وَالْمَرْئِيِّ هَوَاءٌ لَمْ يَنْفُذْهُ الْبَصَرُ فَإِذَا انْقَطَعَ الْهَوَاءُ عَنِ الرَّائِي وَالْمَرْئِيِّ لَمْ تَصِحَّ الرُّؤْيَةُ وَكَانَ فِي ذَلِكَ الاشْتِبَاهُ لانَّ الرَّائِيَ مَتَى سَاوَى الْمَرْئِيَّ فِي السَّبَبِ الْمُوجِبِ بَيْنَهُمَا فِي الرُّؤْيَةِ وَجَبَ الاشْتِبَاهُ وَكَانَ ذَلِكَ التَّشْبِيهُ لانَّ الاسْبَابَ لا بُدَّ مِنِ اتِّصَالِهَا بِالْمُسَبَّبَاتِ۔
احمد بن اسحاق سے مروی ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کو مسئلہ رویت اوراس کے اختلاف کے متعلق بتایا۔ فرمایا نہیں جائز ہے رویت جب تک رائی و مرئی کے درمیان ہوا نہ ہو (روشنی) جو بینائی کو اس چیز تک پہنچائے۔ اگر دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کے درمیان ہوا نہ ہو تو دیکھنا ممکن نہ ہو گا اور شبہات بھی پیدا ہوں گے (کیونکہ یا تو رائی کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہو گی یا مرئی کی طرف سے یا دونوں کی طرف سے ) اس لیے کہ رائی جب برابر ہو گا مرئی کے اس سبب میں جو ان کے درمیان رویت میں ہے تو اشتباہ لازم ہو گا اور یہ اس لیے ہو گا کہ اسباب اتصال مسیات سے ضروری ہے یعنی جب تک اسباب رویت جہت مکان، رنگ، وجود ، ہوا وغیرہ موجود نہ ہوں گے رویت ممکن نہ ہو گی اور اس صورت میں بھی اشتباہات واقع ہوں گے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ حَضَرْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الْخَوَارِجِ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا جَعْفَرٍ أَيَّ شَيْءٍ تَعْبُدُ قَالَ الله تَعَالَى قَالَ رَأَيْتَهُ قَالَ بَلْ لَمْ تَرَهُ الْعُيُونُ بِمُشَاهَدَةِ الابْصَارِ وَلَكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الايمَانِ لا يُعْرَفُ بِالْقِيَاسِ وَلا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ وَلا يُشَبَّهُ بِالنَّاسِ مَوْصُوفٌ بِالايَاتِ مَعْرُوفٌ بِالْعَلامَاتِ لا يَجُورُ فِي حُكْمِهِ ذَلِكَ الله لا إِلَهَ إِلا هُوَ قَالَ فَخَرَجَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ الله أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَهُ۔
راوی کہتا ہے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ایک خارجی آیا اور کہنے لگا اے ابوجعفر آپ کس کی عبادت کرتے ہیں۔ فرمایا اللہ کی۔ اس نے کہا کیا آپ نے اسے دیکھا ہے۔ فرمایا ہاں، لیکن ان آنکھوں سے نہیں بلکہ دلوں نے اس کو دیکھا ہے۔ حقائقِ ایمان کے ساتھ۔ وہ قیاس سے نہیں پہچانا جاتا اور نہ ادراک سے محسوس ہوتا ہے نہ لوگوں سے مشابہ ہے۔ وہ اپنی نشانیوں سے موصوف ہے اور اپنی علامات سے پہچانا ہوا وہ اپنے حکم میں ظلم نہیں کرتا، یہ ہے اللہ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ سن کر وہ یہ کہتا ہوا نکلا کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَوْصِلِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ جَاءَ حِبْرٌ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حِينَ عَبَدْتَهُ قَالَ فَقَالَ وَيْلَكَ مَا كُنْتُ أَعْبُدُ رَبّاً لَمْ أَرَهُ قَالَ وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ قَالَ وَيْلَكَ لا تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فِي مُشَاهَدَةِ الابْصَارِ وَلَكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الايمَانِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک یہودی عالم امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ اے امیر المومنینؑ جس کی آپ نے عبادت کی ہے کبھی اپنے رب کو دیکھا ہے۔ فرمایا وائے ہو تجھ پر میں اس رب کی کیوں عبادت کرتا جس کو نہیں دیکھا۔ اس نے کہا کیسا دیکھا۔ فرمایا وائے ہو تجھ پر یہ آنکھیں اپنی بینائیوں سے اس نہیں پاتیں لیکن دل اسے دیکھتے ہیں حقائقِ ایمان کے ساتھ۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ ذَاكَرْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام فِيمَا يَرْوُونَ مِنَ الرُّؤْيَةِ فَقَالَ الشَّمْسُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءاً مِنْ نُورِ الْكُرْسِيِّ وَالْكُرْسِيُّ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءاً مِنْ نُورِ الْعَرْشِ وَالْعَرْشُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءاً مِنْ نُورِ الْحِجَابِ وَالْحِجَابُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءاً مِنْ نُورِ السِّتْرِ فَإِنْ كَانُوا صَادِقِينَ فَلْيَمْلَئُوا أَعْيُنَهُمْ مِنَ الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے رویت سے متعلق روایات کا ذکر کیا۔ فرمایا سورج نورِ کرسی کے ستر جزوں میں سے ایک جزو ہے اور کرسی نورِ عرش کے ستر ستر جزوں میں سے ایک جزو ہے اور عرش نورِ حجاب کے ستر جزوں میں سے ایک جزو ہے۔ پس اگر وہ لوگ سچے ہیں تو جب بادل نہ ہوں سورج سے پوری طرح آنکھ ملا کے تو دیکھ لیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ بَلَغَ بِي جَبْرَئِيلُ مَكَاناً لَمْ يَطَأْهُ قَطُّ جَبْرَئِيلُ فَكَشَفَ لَهُ فَأَرَاهُ الله مِنْ نُورِ عَظَمَتِهِ مَا أَحَبَّ. فِي قَوْلِهِ تَعَالَى لا تُدْرِكُهُ الابْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الابْصارَ۔
امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب شبِ معراج مجھے آسمان کی طرف لے گئے تو جبرئیل نے مجھے ایسی جگہ پہنچایا جہاں جبرئیل کا قدم اس سے پہلے کبھی نہ گیا تھا۔ پس پردہ ہٹایا گیا اور دکھایا خدا نے اپنے نورِ عظمت کو جتنا اللہ نے چاہا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ لا تُدْرِكُهُ الابْصارُ قَالَ إِحَاطَةُ الْوَهْمِ أَ لا تَرَى إِلَى قَوْلِهِ قَدْ جاءَكُمْ بَصائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ لَيْسَ يَعْنِي بَصَرَ الْعُيُونِ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ لَيْسَ يَعْنِي مِنَ الْبَصَرِ بِعَيْنِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْها لَيْسَ يَعْنِي عَمَى الْعُيُونِ إِنَّمَا عَنَى إِحَاطَةَ الْوَهْمِ كَمَا يُقَالُ فُلانٌ بَصِيرٌ بِالشِّعْرِ وَفُلانٌ بَصِيرٌ بِالْفِقْهِ وَفُلانٌ بَصِيرٌ بِالدَّرَاهِمِ وَفُلانٌ بَصِيرٌ بِالثِّيَابِ الله أَعْظَمُ مِنْ أَنْ يُرَى بِالْعَيْنِ۔
آیہ لا تدرکہ الابصار کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انسان کا وہم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ کیا تم نے اس آیت پر غور نہیں کیا "تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بصائر آ گئے" اس میں بصائر سے مراد بصر عیون نہیں جیسا کہ آگے فرماتا ہے " بس جس نے دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا " اس سے مراد آنکھ سے دیکھنا نہیں اور پھر فرمایا "اور جو اندھا رہا اس نے اپنا نقصان کیا" اس سے مراد آنکھوں سے اندھا ہونا نہیں بلکہ احاطہِ وہم مراد ہے یعنی دل سے عقل سے کام لینا۔ جیسے کہا جاتا ہے فلاں شعر میں بصیر ہے فلاں میں فقہ میں، فلاں روپیہ پیسہ میں فلاں کپڑوں میں، اللہ کی ذات اس سے عظیم تر ہے کہ آنکھیں اس کو دیکھیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الله هَلْ يُوصَفُ فَقَالَ أَ مَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَى قَالَ أَ مَا تَقْرَأُ قَوْلَهُ تَعَالَى لا تُدْرِكُهُ الابْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الابْصارَ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَتَعْرِفُونَ الابْصَارَ قُلْتُ بَلَى قَالَ مَا هِيَ قُلْتُ أَبْصَارُ الْعُيُونِ فَقَالَ إِنَّ أَوْهَامَ الْقُلُوبِ أَكْبَرُ مِنْ أَبْصَارِ الْعُيُونِ فَهُوَ لا تُدْرِكُهُ الاوْهَامُ وَهُوَ يُدْرِكُ الاوْهَامَ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ اللہ کا وصف بیان کیا جائے۔ فرمایا تو نے قرآن پڑھا ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ فرمایا کیا تو نے یہ نہیں پڑھا، بینائیاں اس کا ادراک نہیں کرتیں وہ بینائیوں کا ادراک کرتا ہے۔ میں نے کہا یہ آیت پڑھی ہے۔ فرمایا تم نے ابصار کو سمجھا ہے۔ میں نے کہا ہاں۔ بتاؤ اس سے کیا مرا ہے۔ میں نے کہا آنکھوں کا دیکھنا۔ فرمایا قلوب کے اوہام ابصار عیون سے زیادہ بڑے ہیں۔ پس اس کے معنی یہ ہیں کہ اوہام سے اس کا ادراک نہیں ہوتا البتہ وہ ادراک اوہام کرتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر علیہ السلام لا تُدْرِكُهُ الابْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الابْصارَ فَقَالَ يَا أَبَا هَاشِمٍ أَوْهَامُ الْقُلُوبِ أَدَقُّ مِنْ أَبْصَارِ الْعُيُونِ أَنْتَ قَدْ تُدْرِكُ بِوَهْمِكَ السِّنْدَ وَالْهِنْدَ وَالْبُلْدَانَ الَّتِي لَمْ تَدْخُلْهَا وَلا تُدْرِكُهَا بِبَصَرِكَ وَأَوْهَامُ الْقُلُوبِ لا تُدْرِكُهُ فَكَيْفَ أَبْصَارُ الْعُيُونِ۔
ابو ہاشم جعفری سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے آیت " بینائیاں اس کا ادراک نہیں کرتیں وہ بینائیوں کا ادراک کرتا ہے " کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا اے ابوہاشم، اوہام قلوب ابصار عیون سے زیادہ لطیف و ادق ہیں۔ تم نے اپنے وہم و خیال سے سندھ و ہند اور ان شہروں کا ادراک کر لیا جن میں تم نہیں گئے حالانکہ تم نے آنکھ سے ان کا ادراک نہیں کیا۔ پس جب اوھام قلوب ذاتِ باری کا ادراک نہیں کر سکتے تو آنکھوں سے دیکھنے کا تو ذکر ہی کیا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ الاشْيَاءُ كُلُّهَا لا تُدْرَكُ إِلا بِأَمْرَيْنِ بِالْحَوَاسِّ وَالْقَلْبِ وَالْحَوَاسُّ إِدْرَاكُهَا عَلَى ثَلاثَةِ مَعَانٍ إِدْرَاكاً بِالْمُدَاخَلَةِ وَإِدْرَاكاً بِالْمُمَاسَّةِ وَإِدْرَاكاً بِلا مُدَاخَلَةٍ وَلا؛ّّ مُمَاسَّةٍ فَأَمَّا الادْرَاكُ الَّذِي بِالْمُدَاخَلَةِ فَالاصْوَاتُ وَالْمَشَامُّ وَالطُّعُومُ وَأَمَّا الادْرَاكُ بِالْمُمَاسَّةِ فَمَعْرِفَةُ الاشْكَالِ مِنَ التَّرْبِيعِ وَالتَّثْلِيثِ وَمَعْرِفَةُ اللَّيِّنِ وَالْخَشِنِ وَالْحَرِّ وَالْبَرْدِ وَأَمَّا الادْرَاكُ بِلا مُمَاسَّةٍ وَلا مُدَاخَلَةٍ فَالْبَصَرُ فَإِنَّهُ يُدْرِكُ الاشْيَاءَ بِلا مُمَاسَّةٍ وَلا مُدَاخَلَةٍ فِي حَيِّزِ غَيْرِهِ وَلا فِي حَيِّزِهِ وَإِدْرَاكُ الْبَصَرِ لَهُ سَبِيلٌ وَسَبَبٌ فَسَبِيلُهُ الْهَوَاءُ وَسَبَبُهُ الضِّيَاءُ فَإِذَا كَانَ السَّبِيلُ مُتَّصِلاً بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمَرْئِيِّ وَالسَّبَبُ قَائِمٌ أَدْرَكَ مَا يُلاقِي مِنَ الالْوَانِ وَالاشْخَاصِ فَإِذَا حُمِلَ الْبَصَرُ عَلَى مَا لا سَبِيلَ لَهُ فِيهِ رَجَعَ رَاجِعاً فَحَكَى مَا وَرَاءَهُ كَالنَّاظِرِ فِي الْمِرْآةِ لا يَنْفُذُ بَصَرُهُ فِي الْمِرْآةِ فَإِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ سَبِيلٌ رَجَعَ رَاجِعاً يَحْكِي مَا وَرَاءَهُ وَكَذَلِكَ النَّاظِرُ فِي الْمَاءِ الصَّافِي يَرْجِعُ رَاجِعاً فَيَحْكِي مَا وَرَاءَهُ إِذْ لا سَبِيلَ لَهُ فِي إِنْفَاذِ بَصَرِهِ فَأَمَّا الْقَلْبُ فَإِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الْهَوَاءِ فَهُوَ يُدْرِكُ جَمِيعَ مَا فِي الْهَوَاءِ وَيَتَوَهَّمُهُ فَإِذَا حُمِلَ الْقَلْبُ عَلَى مَا لَيْسَ فِي الْهَوَاءِ مَوْجُوداً رَجَعَ رَاجِعاً فَحَكَى مَا فِي الْهَوَاءِ فَلا يَنْبَغِي لِلْعَاقِلِ أَنْ يَحْمِلَ قَلْبَهُ عَلَى مَا لَيْسَ مَوْجُوداً فِي الْهَوَاءِ مِنْ أَمْرِ التَّوْحِيدِ جَلَّ الله وَعَزَّ فَإِنَّهُ إِنْ فَعَلَ ذَلِكَ لَمْ يَتَوَهَّمْ إِلا مَا فِي الْهَوَاءِ مَوْجُودٌ كَمَا قُلْنَا فِي أَمْرِ الْبَصَرِ تَعَالَى الله أَنْ يُشْبِهَهُ خَلْقُهُ۔
ہشام بن الحکم نے فرمایا کہ اشیاء کا ادراک دو چیزوں سے ہوتا ہے حواس سے اور قلب سے اور حواس سے ادراک کی چند صورتیں ہیں۔ یا مداخلت سے یا مس کرنے سے یا نہ دخل سے نہ مس سے۔ جو ادراک مداخلت سے ہو وہ آوازیں ہیں جو کان میں آئیں یا خوشبوئیں ہیں جو ناک میں آئیں یا ذائقہ ہے جو زبان پر کوئی چیز رکھنے سےہوا اور جو ادراک چھونے سے ہوتا ہے وہ معرفت ہے اشیاء کی۔ بایں طور پر مربع ہیں یا مثلث، نرم ہیں یا سخت، گرم ہیں یا سرد۔ اور جو بلا دخل و مس ہیں وہ دیکھتا ہے کہ آنکھ بغیر دخل و مس معلوم کرتی ہے نہ وہ کسی جگہ میں داخل ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں۔ اور ادراک بصر کے لیے سبیل و سبب کا ہونا ضروری ہے۔ سبیل سے مراد ہے فضا یا ہوا اور سبب سے مراد ہے روشنی جب ہوا متصل ہوا۔ رائی (دیکھنے والا ) اور مرئی (دیکھا ہوا) کے درمیان اور روشنی بھی ہو تو آنکھ رنگ اشخاص کو دیکھتی ہے اور جب آنکھ کو راستہ بڑھنے کا نہیں ملتا تو نگاہ لوٹ آتی ہے اور بیان کرتی ہے اور پیچھے کا حال جیسے آئینہ دیکھنے والا کہ بینائی آئینہ کے اندر نفوذ نہیں کرتی اور جب آگے بڑھنے کی راہ نہیں پاتی تو نظر والے کی نگاہ لوٹ کر حال بیان کرتی ہے۔ اب رہا دل اس کو ہوا پر غلبہ ہے وہ جو کچھ ہوا میں ہے اس کو ادراک کرتا ہے اور سمجھتا ہے جب دل متوجہ ہوتا ہے اس چیز کی طرف جو ہوا میں نہیں تو لوٹ آتا ہے اور اسی کو بیان کرتا ہے جو فضا میں ہے پس عقلمند کو نہیں چاہیے کہ اپنے قلب کو متوجہ کر لے اس چیز کو معلوم کرنے کی طرف جو فضا میں موجود ہی نہیں یعنی ذات باری تعالیٰ۔ اور اگر ایسا کرنا چاہے گا تو وہ اسی چیز کا ادراک کرے گا جو فضا میں ہو گی نہ کہ ذات باری کا جو کسی میں نہیں اور نہ اپنی مخلوق سے مشابہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ نہ تو حواس سے محسوس ہوتی ہے اور نہ دل اس کی ذات کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے وہ نہ کوئی آواز ہے کہ قوت سامعہ سے اس کا ادراک ہے، نہ کھانے پینے کی اشیاء میں سے ہے کہ زبان ادراک کرے نہ وہ چھونے کی چیزوں میں سے ہے کہ قوت لامسہ ادراک کرے اور نہ دل میں اس کی حقیقت آ سکتی ہے کیونکہ دل کا تعلق بھی ان ہی چیزوں سے ہے جو فضا میں موجود ہیں۔